هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی کشکی اور تری میں سیر و گردش کا سامان کردیا ہے، پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ تم جہازوں میں سوار ہوتے ہو جہاز موافق ہوا پاکر تمہیں لے اڑتے ہیں، مسافر خوش ہوتے ہیں (کہ کیا اچھی ہوا چل رہی ہے) پھر اچانک ہوائے تند کے جھونکے نمودار ہوجاتے اور ہر طرف سے موجیں ہجوم کرنے لگتی ہیں اور مسافر خیال کرتے ہیں بس اب ان میں گھر گئے (اور بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی) تو اس وقت (انہیں خدا کے سوا اور کوئی ہستی یاس نہیں آتی وہ) دین کے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارنے لگتے ہیں، خدایا ! اگر اس حالت سے ہمیں نجات دے دے تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے بارے میں ایک عام قاعدہ بیان فرمایا کہ تکلیف کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور تنگ دستی کے بعد فراخی کے وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے، تو اب ان کی اس حالت کا ذکر فرماتا ہے جو اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ ان کی وہ حالت ہے جب وہ سمندر کے اندر سفر کرتے ہیں اور سمندر سخت جوش میں ہوتا ہے اور ان کو اس کے انجام کا خوف ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ ” وہی ہے جو تمہیں چلاتا ہے خشکی اور سمند میں“ یعنی ان اسباب کے ذریعے سے جو اس نے تمہیں مہیا کئے ہیں اور ان کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائی ہے ﴿حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ ﴾ ” یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں بیٹھتے ہو“ یعنی بحری جہازوں میں ﴿وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ﴾ ‘‘‘ اور لے کر چلیں وہ ان کو اچھی ہوا سے“ یعنی کے ہوا جو ان کی خواہش کے موافق بغیر کسی مشقت اور گھبراہٹ کے ان جہازوں کو چلاتی ہے ﴿وَفَرِحُوا بِهَا﴾ ” اور وہ خوش ہوں ساتھ ان کے“ اور ان ہواؤں پر نہایت مطمئن ہوتے ہیں اور وہ اسی حال میں ہوتے ہیں کہ ﴿جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ﴾ ” اچانک زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے“ یعنی کشتیوں پر سخت ہو آئی ﴿وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ﴾ ” اور آئی ان پر موج ہر جگہ سے اور انہوں نے جا ن لیا کہ وہ گھر گئے“ یعنی انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ اب ان کی ہلاکت یقینی ہے، تب اس وقت مخلوق سے ان کے تمام تعلق منقطع ہوجاتے ہیں اور انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اس مصیبت اور سختی سے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا، تب اس وقت ﴿دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ” وہ دین کو اللہ کیلئے خالص کر کے اسی کو پکارتے ہیں“ اور الزامی طور پر اپنے آپ سے وعدہ کرتے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں ﴿ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾ ”اگر تو ہمیں اس مصیبت سے بچا لے تو ہم تیرے شکر گزار ہوجائیں گے۔ “