وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور (ابتدا میں) انسانوں کی ایک ہی امت تھی، پھر الگ الگ ہوگئے، اور اگر تمہارے پروردگار کی جانب سے پہلے ایک بات نہ ٹھہرا دی گئی ہوتی (یعنی لوگ الگ الگ راہوں میں چلیں گے اور اسی اختلاف میں ان کے لیے آزمائش عمل ہوگی) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرر ہے ہیں ان کا فیصلہ کبھی کا ہوچکا ہوتا۔
﴿وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً﴾ ” اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت“ یعنی تمام لوگ صحیح دین پر متفق تھے، پھر ان میں اختلاف واقع ہوگیا، تب اللہ تعالیٰ نے رسول مبعوث فرمائے جو خوشخبری سنانے والے اور برے انجام سے ڈرانے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کتاب نازل فرمائی، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اس بارے میں فیصلہ کرے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ ﴿وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ﴾ ” اور ار نہ ہوتی ایک بات جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے سے طے ہوچکی ہے“ کہ نافرمانوں کو مہلت دینی ہے اور ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کا فوری مواخذہ نہیں کرنا۔ ﴿لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ﴾ ” تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا“ بایں طور پر کہ ہم اہل ایمان کو بچا لیتے اور جھٹلانے والے کفار کو ہلاک کردیتے اور یہ چیز ان کے درمیان امتیاز اور تفریق کی علامت بن جاتی۔ ﴿فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” ان چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے“ مگر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ ان کو ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے اور آزمائش میں مبتلا کرے، تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق واضح ہوجائے۔