قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اور تم کہو اگر اللہ چاہتا تو میں قرآن تمہیں سناتا ہی نہیں اور تمہیں اس سے خبردار ہی نہ کرتا ( مگر اس کا چاہنا یہی ہوا کہ تم میں اس کا کلام نازل ہو اور تمہیں اقوام عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے) پھر دیکھو یہ واقعہ ہے کہ میں اس معاملہ سے پہلے تم لوگوں کے اندر ایک پوری عمر بسر کرچکا ہوں، کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں؟
﴿قُل لَّوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا ﴾ ” کہہ دیجئے ! اگر اللہ چاہتا تو میں پڑھتا اس کو تمہارے سامنے نہ وہ خبر کرتا تم کو اس کی، پس تحقیق میں رہ چکا ہوں تم میں ایک طویل عرصہ اس سے پہلے“ یعنی بہت طویل عرصہ تک میں تمہارے اندر رہا ہوں۔ ﴿مِّن قَبْلِهِ﴾ ” اس سے پہلے“ یعنی اس کی تلاوت اور تمہارے اس کو جان لینے سے قبل۔ اور میں نے کبھی اس کے بارے میں سچا ہی نہ تھا اور یہ چیز کبھی میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ ﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ ” کیا پھر تم نہیں سوچتے‘‘ یعنی میں نے عمر بھر تمہارے سامنے اس کو تلاوت نہیں کیا اور مجھ سے کبھی کوئی ایسی چیز صادر نہیں ہوئی جو اس پر دلالت کرتی ہو، پھر اس کے بعد میں کیوں کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکتا ہوں۔ میں نے تمہارے اندر ایک لمبی عمر گزاری ہے، تم میری حقیقت حال سے خوب واقف ہو، میرے ماں باپ کو جانتے ہو، تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں پڑھ سکتا ہوں نہ لکھ سکتا ہوں اور میں کسی سے درس لیتا ہوں نہ کسی سے تعلیم حاصل کرتا ہوں؟ پس میں تمہارے پاس ایک عظیم کتاب لے کر آیا ہوں جس نے بڑے علماء اور فصحاء کو عاجز اور لاچار کردیا، کیا اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ اس کتاب کو میں نے اپنی طرف سے تصنیف کرلیا ہو یا یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہ حکمت والے اور ستائش کے لائق اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے؟ اگر تم اپنی عقل و فکر کو استعمال کرو، میرے احوال اور اس کتاب کے حال میں تدبر کرو تو تمہیں قطعی یقین آجائے گا جس میں شک کی گنجائش نہیں کہ یہ حق ہے جس کے بعد گمراہی کے سوا کچھ باقی نہیں۔ مگر جب تم نے عناد کی بناء پر اسے جھٹلادیا تو اس میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ تم سخت ظالم ہو اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا یا اس کی آیتوں کو جھٹلایا؟ اگر میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑوں، تو میں لوگوں میں سب سے ظالم شخص اور فلاح سے محروم ہوں۔ میرے حالات تم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات لے کر آیا ہوں، تم نے ان کو جھٹلایا، جس سے یہ بات متعین ہوگئی کہ تم ظالم ہو۔ تمہارا معاملہ عنقریب مضمحل ہوجائے گا اور جب تک تم اپنی اس ڈگر پر چلتے رہو گے، ہرگز فلاح نہیں پا سکو گے۔ ٍ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ﴾ ” جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں وہ کہتے ہیں۔“ دلالت کرتا ہے کہ جس چیز نے ان کو اس تعنت (کٹ حجتی) پر آمادہ کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے پر عدم ایمان اور اس کے ساتھ ملاقات ہونے پر عدم یقین جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر ایمان رکھتا ہے وہ لازمی طور پر اس کتاب کی اتباع کرتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے، کیونکہ وہ صحیح نیت والا ہے۔