دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
وہاں ان کی پکار یہ ہوگی کہ خدایا ساری پاکیاں تیرے ہی لیے ہیں ان کی دعا یہ ہوگی کہ سلامتی ہو اور دعاؤں کا خاتمہ یہ ہوگا کہ الحمد للہ رب العالمین۔
﴿دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ ﴾ ” اس میں ان کی پکار ہوگی، اے اللہ تو پاک ہے“ یعنی جنت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اولین چیز تمام نقائص سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تنزیہ ہوگی اور آخر میں اس کے لئے حمد و ثنا۔ دارالجزا میں ان سے تمام تکالیف ساقط ہوجائیں گی۔ ان کے لئے سب سے بڑی لذت، جو لذیز ترین ماکولات سے بھی زیادہ لذیز ہوگی اور وہ ہوگا اللہ تعالیٰ کا ذکر، جس سے دل مطمئن اور روح خوش ہوگی اور ذکر الٰہی کی حیثیت ان کے لئے وہی ہوگی جو کسی متنفس کے لئے سانس کی ہوتی ہے، مگر کسی کلفت اور مشقت کے بغیر۔ ﴿وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا ﴾ ” اور اس میں ان کی دعائے ملاقات“ یعنی ملاقات اور ایک دوسرے کی زیارت کے وقت ایک دوسرے کو ﴿سَلَامٌ﴾ ”سلام ہوگی“ یعنی وہ سلام کہہ کر ایک دوسرے کو خوش آمدید کہیں گے، یعنی ان کی باہم گفتگو لغویات اور گناہ کی باتوں سے پاک ہوگی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد ﴿دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ۔۔۔۔﴾ الایۃ ...کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اہل جنت جب کھانے پینے کی حاجت محسوس کریں گے تو کہیں گے ﴿سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ﴾ اور ان کے سامنے اسی وقت کھانا حاضر ہوجائے گا۔ ﴿وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ﴾ ”اور ان کی آخری بات“ جب وہ کھانے سے فارغ ہوں گے تو کہیں گے ﴿أَنِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” تمام تعریفیں صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ “