وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
(یہ ہے ابراہیم کا طریقہ) اور ان لوگوں کے سوا جنہوں نے اپنے آپ کو نادانی و جہالت کے حوالے کردیا ہے کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے منہ پھیر سکتا ہے؟ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں بھی اسے برگزیدگی کے لیے چن لیا اور آخرت میں بھی اس کی جگہ نیک انسانوں کے زمرے میں ہوگی
یعنی وہ کون ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت کو پہچان لینے کے بعد ان کی ملت سے روگردانی کرے۔﴿اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ﴾ یعنی ایسا شخص وہی ہوسکتا ہے جس نے اپنے نفس کو جاہل رکھ کر حقیر بنا دیا ہو۔ اپنے نفس کے لیے کمتر چیز پر راضی ہو اور گھاٹے کے سودے میں اسے فروخت کردیا ہو۔ اسی طرح اس شخص سے بڑھ کر کامل اور راست رو کوئی نہیں جو ملت ابراہیم میں رغبت رکھتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حالت کے بارے میں آگاہ فرمایا : ﴿وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم کو چن لیا، انہیں ایسے اعمال کی توفیق سے نوازا جن کی بنا پر وہ چیدہ چیدہ نیک لوگوں میں شمار ہوئے۔ ﴿وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾” اور وہ آخرت میں صالحین میں سے ہوں گے“ یعنی وہ نیک لوگ جو بلند ترین درجات پر فائز ہوں گے۔