رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور خدایا (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو انہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے، کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) ان کے دلوں کو مانجھ دے۔ اے پروردگار ! بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے
﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ﴾ یعنی ہماری اولاد میں رسول مبعوث فرما تاکہ وہ ان دونوں کے درجات کی بلندی کا سبب بنے۔ لوگ اس کی اطاعت کریں اور اسے اچھی طرح پہچان لیں۔ فرمایا : ﴿یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ﴾ یعنی وہ لفظاً لفظاً حفظ کرنے اور حفظ کروانے کے لیے تیری آیات کی تلاوت کرے۔ ﴿وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ﴾ یعنی معافی سمجھاتے ہوئے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے ﴿وَیُزَکِّیْہِمْ﴾ یعنی اعمال صالحہ کے ذریعے سے ان کی تربیت کرے اور اعمال قبیحہ سے ان کو بچائے، کیونکہ قبیح اور ردی اعمال کے ہوتے ہوئے نفس پاک نہیں ہوسکتا۔ ﴿اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ﴾ یعنی تو ہر چیز پر غالب ہے۔ عزیز اس ہستی کو کہتے ہیں جس کی قوت کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکے۔ ﴿الْحَکِیْمُ﴾ حکیم اس ہستی کو کہتے ہیں جو ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھے۔ پس تو اپنے غلبہ و حکمت کے تحت ان کے اندر اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث فرما۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں برگزیدہ نبیوں کی دعا قبول فرما لی اور تمام مخلوق پر عام طور پر اور اولاد ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام پر خاص طور پر رحم کرتے ہوئے اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے : (اَناَ دَعْوَۃُ أَبِی اِبْرَاہِیْمَ) [البدایة والنھایة،275؍2 والصحیحه، رقم:1546،1545] ” میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں۔ “ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس قدر عظمت و بلندی سے نوازا اور ان کی صفات کاملہ بیان فرمائیں تو فرمایا :