وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا ۚ صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے ( جس میں منافقوں کا ذکر ہوتا ہے) تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ تم پر کسی کی نگاہ تو نہیں؟ (یعنی اپنا ذکر سن کر جو تم چونک اٹھے ہو تو اس پر کسی کی نگاہ تو نہیں پڑ رہی؟) پھر منہ پھیر کر چل دیتے ہیں، تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دل ہی (راست بازی سے) پھیر دیئے، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ سے کورے ہوگئے۔
یعنی وہ منافقین جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی سورت نازل نہ ہوجائے جو ان کے دلوں کا بھید کھول دے ﴿ وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ ﴾ ” جب ان پر کوئی سورت نازل کی جاتی ہے“ تاکہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے مضامین پر عمل کریں ﴿نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ﴾ ” تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔“ تاکہ اہل ایمان کی نظروں سے چھپے رہیں اور کہتے ہیں ﴿هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا﴾ ” کیا دکھتا ہے تم کو کوئی مسلمان، پھر کھسک جاتے ہیں“ یعنی کھسک کر نکل جاتے ہیں اورمنہ موڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔ تب اللہ ان کے عمل کی جنس ہی سے انہیں جزا دیتا ہے۔ پس جیسے انہوں نے عمل سے منہ پھیر لیا ﴿صَرَفَ اللَّـهُ قُلُوبَهُم ﴾ ” اللہ نے ان کے دلوں کو (حق سے) پھیر دیا“ یعنی روک دیا اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ﴿بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ﴾ ” کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔“ یعنی وہ ایسی سمجھ نہیں رکھتے جو ان کو فائدہ دے،کیونکہ اگر وہ سمجھ رکھتے ہوتے، تو جب بھی کوئی سورت نازل ہوتی، وہ اس پر ایمان لا کر اس کے احکام کی تعمیل کرتے۔ اس کا مقصد جہاد و غیرہ شرائع ایمان سے ان کی شدت نفور کو بیان کرنا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ﴾ (محمد : 47؍20) ” جب کوئی محکم سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں جہاد کا ذکر ہوتا ہے، تو جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے، آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف اس شخص کی طرح دیکھنے لگتے ہیں جس پر موت کی غشی طاری ہو۔‘‘