وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اور جب ایسا ہوتا ہے کہ (اللہ کی طرف سے) قرآن کی کوئی سورت اترتی ہے تو ان (منافقوں) میں کچھ لوگ ہیں جو (انکار و شرارت کی راہ سے) کہتے ہیں تم لوگوں میں سے کس کا ایمان اس نے زیادہ کردیا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ جو ایمان رکھتے ہیں ان کا ایمان تو ضرور زیادہ کردیا اور وہ اس پر خوشیاں منار رہے ہیں۔
نزول قرآن کے وقت منافقین اور اہل ایمان کا جو حال ہوتا ہے، اور اس وقت ان کے درمیان جو تفاوت ہوتا ہے اسے بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ ﴾ ” اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے“ جس کے اندر او امر و نواہی نازل کئے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے بارے میں خبر دی گئی ہو، امور غائبہ سے آگاہ کیا گیا ہو اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہو۔ ﴿فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ﴾ ” تو ان میں سے بعض کہتے ہیں، تم میں سے کس کا ایمان اس سورت نے زیادہ کیا؟“ یعنی دونوں گروہوں میں سے اسے استفہام حاصل ہے جسے اس سورت پر ایمان حاصل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان دونوں گروہوں کا حال واقع بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا﴾ ” پس جو لوگ ایمان رکھتے ہیں، ان کا ایمان اس سورت نے زیادہ کردیا“ اس سورت کے علم، اس کے فہم، اس پر اعتقاد، اس پر عمل، بھلائی کا کام میں رغبت اور برائی کے کام سے رکنے کے ذریعے سے ان لوگوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جو اہل ایمان ہیں۔ ﴿وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾ ” اور وہ خوشخبری حاصل کرتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو جو اپنی آیت سے نوازا ہے اور ان کا فہم حاصل کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق بخشی ہے اس پر وہ ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے ہیں۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کو آیت الٰہی پر انشراح صدر، اطمینان قلب اور سرعت اطاعت حاصل ہے، کیونکہ یہ آیت ان کو اس امر کی ترغیب دیتی ہیں۔