يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
مسلمانو ! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس (پھیلے ہوئے) ہیں اور چاہیے کہ وہ (جنگ میں) تمہاری سختی محسوس کریں (کہ بغیر اس کے جنگ جنگ نیہں) اور یاد رکھو اللہ ان کا ساتھی ہے جو (ہر حال میں) متقی ہوتے ہیں۔
جنگی معاملات کی تدبیر میں اہل ایمان کی راہ نمائی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف راہنمائی فرمائی ہے کہ ان کفار سے ابتدا کی جائے جو سب سے قریب ہیں ان کے ساتھ رویہ سخت رکھا جائے اور جنگ میں ان کا نہایت سختی، بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ﴾ ” اور جان رکھو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔“ یعنی تمہیں یہ علم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد تقویٰ کے مطابق نازل ہوتی ہے، اس لئے تقویٰ کا التزام کرو، اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے دشمن کے خلاف تمہیں نصرت سے نوازے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد : ﴿قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ ﴾ ” قریب کے کافروں سے قتال کرو۔“ عام ہے، تاہم جب مصلحت اس بات کا تقاضا کرے کہ ان کافروں کے ساتھ لڑائی کی جائے جو قریب نہیں ہیں، تو اس وقت ایسا کرنا ضروری ہوگا اور یہ خاص حکم اس عموم سے مستثنیٰ ہوگا، کیونکہ مصالح کی اقسام تو بے شمار ہیں۔