وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
اور ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے بخشائش کی آرزو کی تھی تو صرف اس وجہ سے کہ اپنا وعدہ پورا کردے جو وہ اس سے کرچکا تھا (یعنی اس نے کہا تھا میرے بس میں اور تو کچھ نہیں، دعا ہے تو اس سے بارز نہیں رہوں گا) لیکن جب اس پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ (کی سچائی) کا دشمن ہے (اور کبھی حق کی راہ اختیار کرنے والا نہیں) تو اس سے بیزار ہوگیا۔ بلاشبہ ابراہیم بڑا ہی دردمند بڑا ہی بردبار (انسان) تھا۔
جب ابراہیم علیہ السلام پر واضح ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور اسے موت بھی کفر ہی پر آئے گی اور وعظ و نصیحت نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا ﴿تَبَرَّأَ مِنْهُ﴾ ” تو اس سے بیزار ہوگئے۔“ یعنی اپنے رب کی موافقت اور اس کی اتباع میں اس سے بیزاری کا اعلان کردیا۔ ﴿إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ ﴾ ” کچھ شک نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل تھے۔“ حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت زیادہ رجوع کرنے والے اور بہت کثرت سے ذکر، دعا، استغفار کرنے والے اور اپنے رب کی طرف پلٹنے والے تھے۔ ﴿حَلِيمٌ﴾ ”نہایت بردبار تھے۔“ یعنی وہ مخلوق الٰہی پر بہت مہربان اور اپنے حق میں ان سے صادر ہونے والی کوتاہیوں اور لغزشوں سے درگزر کرنے والے تھے۔ جہلاء کی جہالت انہیں آپے سے باہر نہیں کرسکتی تھی۔ وہ کسی مجرم کا مقابلہ جرم کے ذریعے سے نہیں کرتے تھے۔ ان کے باپ نے ان سے کہا : ﴿ لَأَرْجُمَنَّكَ﴾ (مریم : 19؍46) ” میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔“ جواب میں آپ نے فرمایا : ﴿سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّ﴾ (مریم : 19؍47) ” آپ پر سلامتی ہو میں اپنے رب سے آپ کے لئے بخشش طلب کرتا رہوں گا۔“ پس تم پر واجب ہے کہ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی اور ہر معاملے میں ملت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کرو، سوائے آپ کے اس قول کے ﴿إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ﴾ (الممتحنۃ: 60؍4) ” ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کے سوا جو انہوں نے باپ سے کہا تھا کہ میں آپ کے لئے مغفرت طلب کرتا رہوں گا۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :