خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(اے پیغمبر) ان لوگوں کے مال سے صدقات قبول کرلو، تم قبول کر کے انہیں (بخل و طمع کی برائیوں سے) پاک اور (دل کی نیکیوں کی ترقی سے) تربیت یافتہ کردو، نیز ان کے لیے دعائے خیر کرو، بلا شبہ تمہاری دعا ان کے دلوں کے لیے راحت و سکون ہے، اور اللہ (دعائیں) سننے والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے قائم مقائم کو ان امور کا حکم دیتا ہے جو اہل ایمان کی تطہیر اور ان کے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں، چنانچہ فرماتا ہے : ﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً﴾ ” لیں ان کے مالوں سے صدقہ“ اس سے مراد فرض زکوٰۃ ہے ﴿تُطَهِّرُهُمْ﴾ ” آپ ان کو پاک کریں“ یعنی ان کو گناہوں اور اخلاق رذیلہ سے پاک کریں ﴿وَتُزَكِّيهِم ﴾ ” اور ان کا تزکیہ کریں“ یعنی آپ ان کی نشونما کریں، ان کے اخلاق حسنہ، اعمال صالح اور ان کے دنیاوی اور دینی ثواب میں اضافہ کریں اور ان کے مالوں کو بڑھائیں۔ ﴿وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور ان کے حق میں دعا کیجئے“ تمام مومنین کے لئے عام طور پر اور خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے مال کی زکوٰۃ آپ کی خدمت میں پیش کریں۔ ﴿ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ﴾ ” آپ کی دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے۔“ یعنی آپ کی دعا ان کے لئے اطمینان قلب اور خوشی کا باعث ہے ﴿وَاللَّـهُ سَمِيعٌ﴾ ” اور اللہ سننے والا“ یعنی اللہ آپ کی دعا کو قبال کرنے کے لئے سنتا ہے ﴿عَلِيمٌ ﴾ ”جاننے والا ہے۔“ وہ اپنے بندوں کے تمام احوال اور ان کی نیتوں کو خوب جانتا ہے، وہ ہر شخص کو اس کے عمل اور اس کی نیت کے مطابق جزا دے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل فرمایا کرتے تھے۔ آپ ان کو صدقات کا حکم دیتے تھے اور صدقات کی وصولی کے لئے اپنے عمال بھیجا کرتے تھے، جب کوئی صدقہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اسے قبول فرما لیتے اور اس کے لئے برکت کی دعا فرماتے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ تمام اموال میں زکوٰۃ واجب ہے، جب یہ اموال تجارت کی غرض سے ہوں تو اس کا وجوب صاف ظاہر ہے، کیونکہ مال تجارت نمو کا حامل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے سے مزید مال کمایا جاتا ہے، لہٰذا عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زکوٰۃ فرض کی ہے اسے ادا کر کے فقرا سے ہمدردی کی جائے۔ مال تجارت کے علاوہ دیگر مال، اگر نمو اور اضافے کا حامل ہو، جیسے غلہ جات،پھل، مویشی، مویشیوں کا دودھ اور ان کی نسل وغیرہ تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے۔ اگر مال نمو کے قابل نہ ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہیں، کیونکہ جب یہ مال خالص خوراک اور گزارے کے لئے ہے تو یہ ایسا مال نہیں ہے جسے انسان عادۃً متمول ہونے کے لئے رکھتا ہے جس سے مالی مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں، بلکہ اس سے مالی فوائد کی بجائے صرف گزارہ کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انسان اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کئے بغیر ظاہری اور باطنی طور پر پاک نہیں ہوسکتا۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے سوا کوئی چیز اس کا کفارہ نہیں بن سکتی، کیونکہ زکوٰۃ تطہیر اور پاکیزگی ہے جو زکوٰۃ کی ادائیگی پر موقوف ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ امام یا اس کے نائب کا زکوٰۃ ادا کرنے والے کے لئے برکت کی دعا کرنا مستحب ہے اور مناسب یہ ہے کہ امام باآواز بلند دعا کرے،تاکہ اس سے زکوٰۃ دا کرنے والے کو سکول قلب حاصل ہو۔ اس آیت کریمہ سے یہ معنی بھی نکلتا ہے کہ مومن کے ساتھ نرم گفتگو اور اس کے لئے دعا وغیرہ اور ایسی باتوں کے ذریعے سے اس کو خوش رکھا جائے جن میں اس کے لئے طمانیت اور سکون قلب ہو۔