وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور (ہاں) اعرابیوں ہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ حق میں) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقریب اور رسول کی دعاؤں کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ تو سن رکھو کہ فی الحقیقت وہ ان کے لیے موجب تقریب ہی ہے، اللہ انہیں اپنی رحمت کے دائرہ میں داخل کرے گا، بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔
تمام اعراب قابل مذمت نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں ﴿مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ﴾ ” جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں“ بنا بریں وہ کفر و نفاق سے بچے ہوئے ہیں اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ ﴿وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّـهِ ﴾ ” اور جو وہ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے نزدیک ہونے میں شمار کرتے ہیں“ یعنی وہ اپنے صدقے پر ثواب کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے قرب کے قصد سے صدقہ دیتے ہیں۔ ﴿وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ﴾ ” اور رسول کی دعائیں لینے میں“ اور وہ اس صدقہ کو اپنے لئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں اور برکت کا وسیلہ بناتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کے فائدہ مند ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ﴾ ”سنو وہ بے شک ان کے لیے موجب قربت ہے۔“ یعنی یہ صدقات اللہ تعالیٰ کی تقرب کا ذریعہ ہیں۔ صدقات سے ان کا مال بڑھتا ہے اور اس میں برکت نازل ہوتی ہے ﴿سَيُدْخِلُهُمُ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ﴾ ” اللہ ان کو عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔“ وہ ان کو اپنے جملہ نیک بندوں میں شامل کرے گا۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ جو کوئی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ اپنی رحمت کو اپنے تمام بندوں پر عام کرتا ہے، اس کی بے پایاں رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ وہ اپنے مومن بندوں کو ایسی رحمت کے لئے مخصوص کرتا ہے جس کے تحت وہ ان کو نیکیوں کی توفیق عطا کرتا ہے اور انہیں اپنے احکام کی خلاف ورزی سے محفوظ رکھتا ہے اور انہیں مختلف انواع کے ثواب عطا کرتا ہے۔ 1۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ بدوی لوگ بھی شہروں میں رہنے والے لوگوں کی مانند ہیں ان میں قابل ستائش لوگ بھی ہیں اور قابل مذمت بھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بدویوں کی محض اس بنا پر مذمت نہیں فرمائی کہ وہ صحراؤں میں رہنے والے ہیں، بلکہ ان کی مذمت اس سبب کی بنا پر کی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اوا مرکو ترک کردیا اور اوامرو منہیات کی عدم تعمیل کی ان سے زیادہ توقع ہوتی ہے۔ 2۔ کفر اور نفاق کم یا زیادہ اور حسب احوال سخت یا نرم ہوتا رہتا ہے۔ 3۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ علم کو فضیلت حاصل ہے۔ علم سے محروم شخص، اس شخص کی نسبت شر کے زیادہ قریب ہے جو علم رکھتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اعراب کی مذمت کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ وہ کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر بھی کیا ہے جو اس درشتی کا موجب ہے۔ ان سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ان حدود سے ناواقف ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی ہیں۔ 4۔ علم نافع، جو سب سے زیادہ نفع مند علم ہے، دین کے اصول و فروع کی حدود کی معرفت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی ہیں، مثلاً حدود ایمان، حدود اسلام، حدود احسان، تقویٰ، فلاح، اطاعت، نیکی، صلہ رحمی، بھلائی، کفر، نفاق، فسق و فجور، نافرمانی، زنا، شراب نوشی اور سود خوری وغیرہ کی حدود۔ ان حدود کی معرفت کے بعد ہی عارف ان حدود پر عمل پیرا ہوسکتا ہے جن پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا حرام ہونے کی صورت میں ترک کرنے پر قادر ہوسکتا ہے۔ 5۔ بندہ مومن کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ شرح صدر اور اطمینان قلب کے ساتھ ان حقوق کو ادا کرے جو اس کے ذمے عائد کیے گئے ہیں اور ہمیشہ فائدہ حاصل کرنے میں کوشاں رہے اور نقصان سے بچتا رہے۔