الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اعرابی کفر اور نفاق میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی نسبت سمجھا جائے دین کے ان حکموں کی انہیں خبر نہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیے ہیں (کیونکہ آبادیوں میں نہ رہنے کی وجہ سے تعلیم و تربیت کا موقع انہیں حاصل نہی) اور اللہ (سب کا حال) جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ الْأَعْرَابُ﴾ ” بدوی“ اس سے مراد صحرا اور دیہات میں رہنے والے لوگ ہیں ﴿ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا﴾ ” زیادہ سخت ہیں کفر اور نفاق میں۔“ یعنی صحرا میں رہنے والوں میں شہر کے ان لوگوں کی نسبت زیادہ کفر اور نفاق ہے جن میں نفاق کا مرض پایا جاتا ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ (١) بدوی لوگ شریعت، اعمال اور احکام سے بہت دور ہوتے ہیں۔ پس وہ اسی قابل ہوتے ہیں ﴿وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ﴾ ” اور اس قابل ہیں کہ جو احکام اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں، مثلاً اصول ایمان اور او امرو نواہی وغیرہ۔۔۔۔ ان سے واقف نہ ہوں۔ اس کے برعکس شہر میں رہنے والے لوگ اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان حدود سے واقع ہوں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہیں اور اس عمل کے سبب سے ان میں خوبصورت تصورات اور نیکی کے ارادے جنم لیتے ہیں جن کے بارے میں یہ شہری لوگ جانتے ہیں، بدوی ان کا علم نہیں رکھتے۔ (٢) شہریوں میں لطافت طبع پائی جاتی ہے اور ان میں داعی حق کی اطاعت کا جذبہ موجود ہوتا ہے جو بدویوں میں نہیں ہوتا۔ (٣) شہری بدویوں کی نسبت اہل ایمان کے ساتھ زیادہ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے ساتھ زیادہ اختلاط رکھتے ہیں۔ بنا بریں اور بدویوں کی نسبت بھلائی کے زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ ہرچند کہ کفار اور منافقین شہر اور دیہات دونوں جگہ پائے جاتے ہیں مگر دیہات میں شہر کی نسبت کفر و نفاق زیادہ شدید ہوتا ہے۔ (٤) بدوی مال و متاع کے زیادہ حریص ہوتے ہیں اور مال کے بارے میں ان میں زیادہ بخل پایا جاتا ہے۔