وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ) کے اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) انسانوں کے گرد آوری کا مرکز اور امن و ھرمت کا مقام ٹھہرا دیا اور حکم دیا کہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لیے) نماز کی جگہ بنا لی جائے۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا تھا کہ ہمارے نام پر جو گھر بنایا گیا ہے اسے طواف کرنے والوں، عبادت کے لیے ٹھہرنے والوں اور رکوع و سوجد کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) پاک رکھنا اور ظلم و معصیت کی گندگیوں سے آلودہ نہ کرنا)
پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے باقی رہنے والے نمونے کا ذکر فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا محترم گھر جس کی زیارت کو اللہ تعالیٰ نے دین کا ایک رکن اور گناہوں، کوتاہیوں کو ختم کردینے والا قرار دیا اور اس محترم گھر میں اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے آثار ہیں جن کے ذریعے سے ان کی امامت کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور حضرت خلیل علیہ السلام کی حالت یاد آتی ہے۔ پس فرمایا: ﴿ وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ۭ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محترم گھر کو لوگوں کا مرجع قرار دیا، لوگ اپنے دینی اور دنیاوی منافع کے حصول کی خاطر وہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں بار بار جانے کے باوجود ان کا دل نہیں بھرتا ﴿وَاَمْنًا ﴾ اور اللہ تعالیٰ نے اس محترم مقام کو جائے امن قرار دیا جہاں پہنچ کر ہر شخص محفوظ و مامون ہوجاتا ہے یہاں تک کہ جنگلی جانور اور نباتات و جمادات بھی مامون ہوتے ہیں۔ بنابریں جاہلیت کے زمانے میں، اہل عرب اپنے شرک کے باوجود بیت اللہ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کوئی اگر بیت اللہ میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو تب بھی اس میں انتقامی جذبہ جوش نہ مارتا جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حرمت، عظمت اور اس کے شرف و تکریم میں اور اضافہ کردیا۔ ﴿ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ۭ﴾” اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ“ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ اسے مراد وہ معروف مقام ہو جو اب بیت اللہ کے دروازے کے بالمقابل ہے اور جائے نماز بنانے سے مراد طواف کی دو رکعت ہیں جو مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنا مستحب ہے۔ جمہور مفسرین کا یہی مذہب ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہاں مقام مفرد اور مضاف ہو، اس صورت میں یہ حج کے ان تمام مقامات کو شامل ہوگا، جہاں جہاں ابراہیم علیہ السلام کے قدم پہنچے اور یہ حج کے سارے مشاعر ہوں گے، جیسے طواف، سعی صفا و مروہ، وقوف عرفات و مزدلفہ، رمی جمار (کنکریاں مارنا) قربانی اور دیگر افعال حج۔ پس یہاں ﴿ مُصَلًّی ﴾ کا معنی ” عبادت کی جگہ“ قرار پائے گا۔ یعنی تمام شعائر حج میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرو۔ شاید یہی معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے اندر پہلا معنی بھی آجاتا ہے اور لفظ بھی اس معنی کا متحمل ہے۔ ﴿ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کی طرف وحی کر کے انہیں حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کو شرک، کفر و معاصی، رجس و نجاست اور گندگی سے پاک کریں تاکہ اللہ کا یہ گھر ﴿لِلطَّاۗیِٕفِیْنَ﴾ طواف کرنے والوں ﴿وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ﴾ ” اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں“ یعنی نمازیوں کے لیے پاک ہوجائے۔ آیت کریمہ میں طواف کے ذکر کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ یہ مسجد حرام سے مختص ہے اس کے بعد اعتکاف کا ذکر آیا ہے کیونکہ صحت اعتکاف کے لیے مطلقاً مسجد کی شرط ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کا ذکر طواف و اعتکاف کے بعد ہے باوجود اس بات کے کہ وہ افضل ہے۔ باری تعالیٰ نے کعبہ کو چند وجوہات کی بنا پر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ (1) اللہ کا گھر ہونے کے حوالے سے یہ نہایت شدت سے اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اس کی تطہیر کا خوب اہتمام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں اور اپنی پوری طاقت صرف کردیں۔ (2) اللہ تعالیٰ کی طرف یہ نسبت عزت و شرف اور تکریم کی متقاضی ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے۔ (3) یہ اضافت اور نسبت ہی ہے جو دلوں کو بیت اللہ کی طرف کھینچنے کا باعث ہے۔