وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ
اور (اے پیغبر) ان میں سے کوئی مرجائے تو تم کبھی اس کے جنازہ پر (اب) نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے رہنا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حالت میں مرے کہ (دائرہ) ہدایت سے باہر تھے۔
﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ ﴾ ” اور آپ نہ نماز پڑھیں ان میں سے کسی پر جو مر جائے“ منافقین میں سے اگر کوئی مر جائے ﴿وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ﴾ ” اور نہ کھڑے ہوں اس کی قبر پر“ دفن کرنے کے بعد، تاکہ آپ اس کے حق میں دعا کریں، کیونکہ ان کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کے لئے دعا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کی شفاعت ہے اور شفاعت ان کو کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ ﴿إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ﴾ ”بے شک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ مرے نافرمان“ اور جو کافر ہے اور کفر ہی کی حالت میں مر گیا تو کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت اس کے کام نہ آئے گی۔ اس آیت کریمہ میں دوسروں کے لئے عبرت اور زجر و توبیخ ہے۔ اسی طرح ہر اس شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے جس کا کفر اور نفاق معلوم ہو۔ نیز آیت کریمہ میں اہل ایمان کی نماز جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کے لئے دعا مانگنے کی مشروعیت کی دلیل ہے، جیسا کہ اہل ایمان کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ تھا، کیونکہ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ تقیید دلالت کرتی ہے کہ اہل ایمان کے بارے میں یہ چیز متحقق اور جائز ہے۔