سورة التوبہ - آیت 67

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم جنس، برائی کا حکم دیتے ہیں اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور (راہ حق میں خرچ کرنے سے) اپنی مٹھیاں بند رکھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بھی اللہ کے حضور بھلا دیئے گئے (یعنی جو اس کی طرف سے غافل ہوجاتا ہے اس کے قوانین فضل و سعادت بھی اسے بھلا کر چھوڑ دیتے ہیں) بلا شبہ یہ منافق ہی ہیں جو (دائرہ حق سے) باہر ہوگئے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ﴾ ” منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں۔“ کیونکہ نفاق ان میں قدر مشترک ہے اس لئے وہ ایک دوسرے کے باہم دوست ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان اور منافقین کے درمیان موالات کا رشتہ منقطع ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منافقین کا عمومی وصف بیان فرمایا جس سے ان کا چھوٹا اور بڑا کوئی بھی باہر نہیں۔ ﴿يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ ﴾ ” وہ بری بات کا حکم دیتے ہیں“ اور وہ ہے کفر، فسق اور معصیت ﴿وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ﴾ ” اور معروف سے روکتے ہیں“ معروف سے مراد ایمان، اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ اور آداب حسنہ ہیں۔ ﴿وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ﴾ ” اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو“ صدقہ اور بھلائی کے راستوں سے پس اللہ تعالیٰ نے ان کو بخل کی صفت سے موصوف کیا ہے۔ ﴿نَسُوا اللَّـهَ﴾ ” وہ بھول گئے اللہ کو“ پس وہ بہت کم اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ ﴿ فَنَسِيَهُمْ﴾ ” تو وہ بھی بھول گیا ان کو“ یعنی ان پر رحمت کرنے سے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو بھلائی کی توفیق عطا نہیں کرتا اور نہ ان کو جنت میں داخل کرے گا، بلکہ وہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں چھوڑ دے گا جہاں ان کو ہمیشہ رکھا جائے گا۔ ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ ” بے شک منافق ہی نافرمان ہیں“ اللہ تعالیٰ نے فسق کو منافقین میں محصور کردیا، کیونکہ ان کا فسق دیگر فساق کے فسق سے زیادہ بڑا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کو دیا جانے والا عذاب دوسروں کو دیئے جانے والے عذاب کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔ نیز اہل ایمان جب ان کے درمیان رہ رہے تھے تو ان منافقین کے باعث ان کو آزمائش میں ڈالا گیا اور ان سے بچنے کی نہایت سختی سے تاکید کی گئی۔