وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ
اور اگر واقعی ان لوگوں نے نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ سروسامان کی تیاری ضرور کرتے مگر (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ نے ان کا اٹھنا پسند ہی نہیں کیا، پس انہیں بوجھل کردیا اور ان سے کہا گیا (یعنی ان کے بوجھ پنے نے کہا) دوسرے بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ تم بھی بیٹھے رہو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ بیان فرماتا ہے‘جہاد سے جی چرا کر پیچھے رہ جانے والے منافقین کی علامات اور قرآئن سے ظاہر ہوگیا ہے کہ جہاد کے لئے نکلنے کا ان کا ارادہ ہی نہ تھا اور ان کی وہ معذرتیں جو وہ پیش کر رہے ہیں سب باطل ہیں، کیونکہ عذر جہاد کے لئے نکلنے سے تب مانع ہوتا ہے جب بندہ مومن پوری کوشش کر کے جہاد کے لئے نکلنے کے تمام اسباب استعمال کرنے کی سعی کرتا ہے، پھر کسی شرعی مانع کی وجہ سے جہاد کے لئے نکل نہیں سکتا تو یہی وہ شخص ہے جس کا عذر قبول ہے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ یہ منافقین ﴿لَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً﴾ ” اگر نکلنے کا ارادہ کرتے، تو اس کے لئے ضرور کچھ سامان تیار کرتے“ یعنی وہ تیاری کرتے اور ایسے تمام اسباب عمل میں لاتے جو ان کے بس میں تھے۔ چونکہ انہوں نے اس کے لئے تیاری نہیں کی اس لئے معلوم ہوا کہ ان کا جہاد کے لئے نکلنے کا ارادہ ہی نہ تھا ﴿وَلَـٰكِن كَرِهَ اللَّـهُ انبِعَاثَهُمْ﴾ ”لیکن اللہ نے پسند کیا ان کا اٹھنا“ یعنی ان کا جہاد کیلئے تمہارے ساتھ نکلنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوا ﴿فَثَبَّطَهُمْ ﴾ ” سوروک دیا ان کو“ اللہ تعالیٰ نے قضا و قدر کے ذریعے سے ان کو جہاد کے لئے نکلنے سے باز رکھا۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیا تھا اور اس کی ان کو ترغیب بھی دی اور وہ ایسا کرنے کی قدرت بھی رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کی بنا پر ان کی اعانت نہ فرمائی، اس نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا اور ان کو جہاد کے لئے نکلنے سے باز رکھا۔ ﴿ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ﴾ ” اور کہا گیا،بیٹھے رہو، بیٹھنے والوں کے ساتھ“ یعنی عورتوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھ رہو۔