إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ ۚ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
نسی (یعنی مہینے کو اس کی جگہ سے پیچھے ہٹا دینا جیسا کہ جاہلیت میں دستور ہوگیا تھا) اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کفر میں کچھ اور بڑھ جانا ہے۔ اس سے کافر گمراہی میں پڑتے ہیں۔ ایک ہی مہینے کو ایک برس حلال سمجھ لیتے ہیں (یعنی اس میں لڑائی جائز کردیتے ہیں) اور پھر اسی کو دوسرے برس حرام کردیتے ہیں (یعنی اس میں لڑائی ناجائز کردیتے ہیں) تاکہ اللہ نے حرمت کے مہینوں کی جو گنتی رکھی ہے اسے اپنی گنتی سے مطابق کر کے اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کو حلال کرلیں، ان کی نگاہوں میں ان کے برے کام خوشنما ہو کر دکھائی دیتے ہیں اور اللہ (کا قانون ہے کہ وہ) منکرین حق پر (کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں کھولتا۔
﴿النَّسِيءُ﴾ ” تاخیر“ وہ ہے جو اہل جاہلیت حرام مہینوں میں استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ ان کی جملہ بدعات میں سے ایک بدعت تھی کہ جب انہیں حرام مہینوں میں سے کسی مہینے میں لڑائی کی ضرورت پڑتی، تو وہ۔۔۔ اپنے فاسد آراء کے مطابق سمجھتے تھے کہ حرام مہینوں کی گنتی کو پورا رکھا جائے جن کے اندر لڑائی حرام ہے اور یہ کہ وہ بعض حرام مہینوں کو موخر یا مقدم کردیتے تھے اور اس کی جگہ حلال مہینوں میں سے کسی مہینے کو حرام بنا لیتے تھے۔ جب ان حرام کی جگہ حلال مہینوں کو مقرر کردیتے تو حرام مہینوں میں لڑائی کو حلال کرلیتے اور حلال مہینوں کو حرار قرار دے دیتے ان کا یہ رویہ۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے۔۔۔ ان کی طرف سے مزید کفر اور گمراہی کا رویہ ہے کیونکہ اس میں ایسے امور ہیں جن سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ (١) انہوں نے ﴿نَّسِيءُ﴾ کو اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی شریعت اور دین قرار دے دیا حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں۔ (٢) انہوں نے دین کو بدل ڈالا، حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے ڈالا۔ (٣) انہوں نے بزعم خود، اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے ساتھ فریب کیا۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ان کے دین کو گڈ مڈ کردیا۔ اللہ تعالیٰ کے دین میں حیلہ سازی اور فریب کاری کو استعمال کیا۔ (٤) شریعت کی مخالفت میں بار بار کئے جانے والے اعمال پر دوام سے لوگوں کے دلوں سے ان کی قباحت زائل ہوجاتی ہے، بلکہ بسا اوقات ایسے کام اچھے محسوس ہونے لگتے ہیں، اس کے جو خطرناک نتائج نکلتے ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ ﴾ ” گمراہی میں پڑتے ہیں اس سے کافر، حلال کرلیتے ہیں اس مہینے کو ایک برس اور حرام رکھتے ہیں اس کو دوسرے برس، تاکہ پوری کرلیں گنتی ان مہینوں کی جن کو اللہ نے حرمت والا قرار دیا ہے“ یعنی حرام مہینوں کے عدد میں موافقت کریں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے انہیں حلال قرار دے لیں ﴿زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ﴾ ” ان کے برے اعمال ان کے لئے مزین کردیئے گئے ہیں۔“ یعنی شیاطین نے ان کے سامنے ان کے بارے اعمال کو مزید کردیا اور ان کے دلوں میں جو عقائد مزین ہوگئے ہیں ان کی وجہ سے وہ ان اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں۔۔ ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾ ” اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ یعنی وہ لوگ جو کفر کے رنگ میں رنگے گئے ہیں اور تکذیب نے ان کے دلوں میں جڑ پکڑ لی ہے لہٰذا ان کے پاس اگر تمام نشانیاں بھی آجائیں تو یہ ایمان نہیں لائیں گے۔