سورة التوبہ - آیت 35

يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

عذاب دردناک کا وہ دن جبکہ (ان کا جمع کیا ہوا) سونے چاندی کا ڈھیر دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کے ماتھے، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (اور اس وقت کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کیا تھا، سو جو کچھ ذخیرہ کر کے جمع کرتے رہے اس کا مزہ آج چکھ لو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اس عذاب کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا﴾ ” جس دن اس (مال) کو گرم کیا جائے گا۔“ یعنی ان کے مال پر آگ دہکائی جائے گی۔ ﴿فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ ﴾ ” جہنم کی آگ میں۔“ یعنی ہر دینار اور ہر درہم پر علیحدہ علیحدہ آگ دہکائی جائے گی۔ ﴿فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ﴾ ”(پھر اس سے قیامت کے روز) ان لوگوں کی پیشانیوں، ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا۔“ جب بھی یہ دینار و درہم ٹھنڈے پڑجائیں گے تو ان کو دوبارہ دن بھر تپایا جائے گا اور وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا اور انہیں زجر و توبیخ اور ملامت کرتے ہوئے کہا جائے گا۔ ﴿هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ﴾ ” یہی وہ مال ہے جو تم سینت سینت کر رکھتے تھے اپنی جانوں کے لئے اب مزہ چکھو اپنے جمع کرنے کا“ پس اللہ تعالیٰ نے تم پر ظلم نہیں کیا بلکہ تم نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اس خزانے کے ذریعے سے تم نے اپنی جانوں کو عذاب میں مبتلا کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دو آیات کریمہ میں انسان کے اپنے مال کے بارے میں انحراف کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ انحراف دو امور کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ (١) انسان اس کو باطل کے راستے میں خرچ کرتا ہے جس کا اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ اس سے اس کو صرف نقصان ہی پہنچتا ہے، مثلاً معاصی اور شہوات میں مال خرچ کرنا جس سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اعانت حاصل نہیں ہوتی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کے لئے مال خرچ کرنا۔ (٢) جہاں مال خرچ کرنا واجب ہو وہاں مال خرچ نہ کرنا اور کسی چیز سے روکنا درحقیقت اس کی ضد کا حکم دینا ہے۔