قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو) ان سے (بھی) جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہوجائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔
اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ قتال کا حکم ہے۔ ﴿الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ ” جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے“ ایسا ایمان جس کی تصدیق ان کے افعال و اعمال کرتے ہوں۔ ﴿لَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُ﴾ ” اور نہ حرام سمجھتے ہیں ان چیزوں کو جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے“ یعنی محرمات کی تحریم میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی اتباع نہیں کرتے۔ ﴿وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ﴾ ” اور نہ وہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں۔‘‘ اگرچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک دین رکھتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک باطل دین پر عمل پیرا ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دین میں تغیر و تبدل اور تحریف واقع ہوگئی ہے اور یہ (تحریف شدہ) وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیا یا وہ اس دین پر عمل پیرا ہیں جو منسوخ ہے یعنی جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمایا تھا، پھر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے ذریعے سے منسوخ کردیا۔ پس اس کے منسوخ ہونے کے بعد اس کے ساتھ تمسک کرناجائز نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دی ہے، کیونکہ وہ لوگوں کو اپنے باطل نظریات کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو اس سبب سے بہت نقصان پہنچتا ہے کہ وہ اہل کتاب ہیں اور اس قتال و جہاد کی غایت و انتہا یہ مقرر کی ہے۔ ﴿حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ ﴾ ” یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں“ یعنی وہ مال ادا کریں جو ان کے خلاف مسلمانوں کے قتال ترک کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اپنے مال و متاع سمیت پرامن رہنے کا عوض ہے جو ہر سال ہر شخص سے اس کے حسب حال خواہ وہ امیر ہے یا غریب، وصول کیا جائے گا۔ جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر اور دیگر سربراہان نے کیا تھا۔ ﴿عَن يَدٍ﴾ ” اپنے ہاتھوں سے“ یعنی مطیع ہو کر اور اقتدار چھوڑ کر یہ مالی عوض ادا کریں اور اپنے ہاتھ سے ادا کریں اور اس کی ادائیگی کے لئے خادم وغیرہ نہ بھیجیں’ بلکہ یہ جزیہ صرف انہی کے ہاتھ سے وصول کیا جائے۔ ﴿وَهُمْ صَاغِرُونَ﴾ اور وہ زیردست اور مطیع بن کر رہیں۔ جب ان کا یہ حال ہو اور وہ مسلمانوں کو جزیہ ادا کرنا، مسلمانوں کے غلبہ اور ان کے احکامات کے تحت آنا قبول کرلیں، حالات ان کے شر اور فتنہ سے مامون ہوں۔ وہ مسلمانوں کی ان شرائط کو تسلیم کرلیں جو ان پر عائد کی گئی ہوں جن سے ان کے اقتدار اور تکبر کی نفی ہوتی ہو اور جو ان کی زیردستی کی موجب ہوں۔۔۔ تو مسلمانوں کے امام یا اس کے نائب پر واجب ہے کہ وہ ان کے ساتھ معاہدہ کرلے۔ اگر وہ معاہدے کو پورا نہ کریں اور زیر دست رہ کر جزیہ ادا نہ کریں، تو ان کو امان دینا جائز نہیں، بلکہ ان کے ساتھ قتال کیا جائے یہاں تک کہ اطاعت کرلیں۔ اس آیت کریمہ سے جمہور اہل علم استدلال کرتے ہیں کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے لیا جائے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کا حکم دیا ہے۔ رہے اہل کتاب کے علاوہ دیگر کافر تو ان کے خلاف اس وقت تک لڑنے کا ذکر ہے جب تک کہ وہ اسلام قبول نہ کرلیں۔ جزیہ ادا کرنے اور اس کے عوض مسلمانوں کے شہروں میں رہنے کے احکام میں مجوس بھی شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علاقہ ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا۔ پھر امیر المومنین حضرت عمر فاورق رضی اللہ عنہ نے ایران کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب تمام کفار سے جزیہ قبول کیا جائے گا کیونکہ یہ آیت کریمہ مشرکین عرب کے ساتھ قتال سے فراغت کے بعد اور اہل کتاب وغیرہ کے ساتھ قتال شروع ہونے پر نازل ہوئی ہے۔ تب یہ قید واقعہ کی خبر ہے اس کا مفہوم نہیں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مجوسیوں سے جزیہ لیا گیا ہے حالانکہ وہ اہل کتاب میں شمار نہیں ہوتے۔ نیز صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے مسلمانوں سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ جس قوم کے خلاف جنگ کرتے انہیں سب سے پہلے تین میں سے ایک چیز قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ (١)اسلام قبول کرنا۔ (٢) جزیہ ادا کرنا۔ (٣) یا تلوار کا فیصلہ قبول کرنا۔۔۔ اور اس میں انہوں نے اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کے درمیان کبھی کوئی فرق نہیں رکھا۔