يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
مسلمانو ! حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مشرک نجس ہیں (یعنی شرک نے ان کے دلوں کی پاکی سلب کرلی ہے) پس چاہیے کہ اب اس برس کے بعد سے (٩ ہجری کے بعد سے) مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں اور اگر تم کو (ان کی آمد و رفت کے بند ہوجانے سے) فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو (کہ وہ ہر طرح کی ضروری چیزیں ہیں باہر سے لاتے اور تجارت کرتے ہیں) تو گھبراؤ نہیں، اللہ چاہے گا تو عنقریب تمہیں اپنے فضل سے تونگر کردے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ﴾ ” اے ایمان والو ! بے شک مشرکین“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اور اس کے ساتھ غیروں کی عبادت کی ﴿نَجَسٌ﴾ ” ناپاک ہیں۔‘‘ یعنی اپنے عقائدو اعمال میں ناپاک ہیں اور اس شخص سے بڑھ کر ناپاک اور کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتا ہے جو نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان اور نہ وہ کوئی کام آسکتے ہیں اور ان لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے، اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے، باطل کی مدد کرنے، حق کو ٹھکرانے اور زمین میں اصلاح کی بجائے فساد کے لئے کام کرنے جیسے افعال پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس لئے تم پر فرض ہے کہ تم سب سے زیادہ شرف کے حامل اور سب سے زیادہ پاک گھر سے مشرکین کو پاک رکھو۔ ﴿فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾ ” پس یہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ جائیں“ اور یہ ٩ ھ کا سال تھا جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا کہ حج کے روز ” براء ت“ کا اعلان کردیں، چنانچہ انہوں نے اعلان کیا کہ سال رواں کے بعد کوئی مشرک حج کے لئے نہیں آٗے گا اور نہ کوئی شخص عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ یہاں نجاست سے مراد بدن کی نجاست نہیں، کیونکہ کافر کا بدن بھی دوسرے لوگوں کے بدن کی طرح پاک ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتابیہ عورت کے ساتھ مباشرت جائز قراردی ہے مگر اس کا پسینہ وغیرہ لگ جانے کی صورت میں اسے دھونے کا حکم نہیں دیا۔ مسلمان ہمیشہ سے کفار کے ساتھ بدنی اختلاط رکھتے چلے آئے ہیں مگر ان سے یہ بات منقول نہیں کہ انہوں نے کفار کو اس طرح ناپاک سمجھا ہو جس طرح وہ گندگی کو ناپاک سمجھتے ہیں۔ درحقیقت اس سے مراد جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزرچکا ہے۔۔۔۔۔۔ معنوی نجاست، یعنی شرک ہے۔ تو جس طرح توحید اور ایمان معنوی طہارت ہے اسی طرح شرک معنوی نجاست ہے۔ ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً﴾ ”(اے مسلمانو !) اگر تمہیں محتاجی کا خوف ہو۔“ یعنی مشرکین کو مسجد حرام کے قریب جانے سےروک دینے کی وجہ سے تمہارے اور ان کے درمیان دنیاوی امور میں قطع تعلق کی بنا پر فقر و احتیاج کے لاحق ہونے کا ڈر ہو ﴿فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ﴾ ” تو اللہ اپنے فضل سے تمہیں غنی کردے گا“ رزق کا ایک ہی دروازہ اور ایک ہی جگہ تو نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اگر رزق کا ایک دروازہ بند ہوجاتا ہے تو بے شمار دوسرے دروازے کھل جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انتہا فضل و کرم سے مسلمانوں کو غنی کردیا۔ انہیں اس قدر کشادہ رزق عطا کیا کہ وہ بڑے بڑے مال داروں اور بادشاہوں میں شمار ہونے لگے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿إِن شَاءَ﴾ ” اگر اس نے چاہا“ اللہ تعالیٰ کا غنی کرنا اس کی مشیت کے ساتھ معلق ہے، کیونکہ وہ دنیا کے اندر غنا کا حاصل ہونا لوازم ایمان میں شمار ہوتا ہے، نہ اللہ تعالیٰ کی محبت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی مشیت کے ساتھ معلق کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ دنیا، ہر ایک کو دیتا ہے، اپنے محبوب بندے کو بھی اور اس کو بھی جس سے وہ محبت نہیں کرتا، مگر وہ ایمان اور دین صرف اسے عطا کرتا ہے جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ اس کا علم بڑا وسیع ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ کون غنا عطا کئے جانے کے لائق ہے اور کون ہے جو اس کے لائق نہیں اور اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کو ان کے لائق مقام پر رکھتا ہے۔ آیت کریمہ ﴿فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾ دلالت کرتی ہے کہ مشرکین مکہ بیت اللہ کی وجہ سے ریاست اور بادشاہی کے مالک تھے پھر فتح مکہ کے بعد حکومت اور اقتدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کے پاس آگیا اور مشرکین مکہ بیت اللہ اور مکہ مکرمہ میں مقیم رہے، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جب نبی اکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو (وفات کے وقت) آپ نے حکم دیا کہ مشرکین کو سرزمین حجاز سے نکال دیا جائے۔ حجاز میں بیک وقت دو دین نہیں رہ سکتے۔۔۔ اور یہ اس وجہ سے، تاکہ ہر کافر کو مسجد حرام سے دور رکھا جائے۔ پس ہر کافر اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾ میں داخل ہے۔