لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ
(مسلمانو) یہ واقعہ ہے کہ اللہ بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کرچکا ہے (جبکہ تمہیں اپنی قلت و کمزوری سے کامیابی کی امید نہ تھی) اور جنگ حنین کے موقع پر بھی جبکہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے (اور سمجھے تھے کہ محض اپنی کثرت سے میدان مار لوگے) تو دیکھو وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی ساری وسعت پر بھی تمہارے لیے تنگ ہوگئی، بالآخر ایسا ہوا کہ تم میدان کو پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اپنے احسان کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے بہت سی لڑائیوں اور جنگی معرکوں میں انہیں اپنی نصرت سے نوازا حتیٰ کہ ” حنین‘‘ کی جنگ میں جب کہ وہ انتہائی شدید صورت حال سے دوچار تھے، وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ ان کو چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں اور زمین اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہورہی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر پہنچی کہ بنو ہوازن آپ پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ چنانچہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے قریش کو ساتھ لے کر مقابلے کے لیے نکلے اس وقت ان کی تعداد بارہ ہزار اور مشرکین کی تعداد چارہزار تھی۔ کچھ مسلمانوں نے اس کثرت تعداد پر اتراتے ہوئے کہا ” آج ہم پر کوئی غالب نہیں آسکے گا۔‘‘ جب بنو ہوازن اور مسلمانوں کی مڈبھیڑ ہوئی ہو انہوں نے مسلمانوں پر یک بارگی حملہ کیا جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئے اور شکست کھا کر بھا گ اٹھے اور انہوں نے پلٹ کر ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سو کے لگ بھگ آدمی رہ گئے تھے جو نہایت ثابت قدمی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ڈٹے مشرکین سے لڑ رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خچر کو ایڑ لگا کر مشرکین کی طرف پیش قدمی کررہے تھے اور فرما رہے تھے ((اَنَاالنَّبِيُّ لَاكَذِبَ اَنَاابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ)) ”میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ جب آپ نے مسلمانوں کی یہ ہزیمت دیکھی تو آپ نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کو، جو کہ بلند آواز شخص تھے حکم دیا کہ وہ انصار اور باقی مسلمانوں کو آواز دیں۔ چنانچہ انہوں نے پکار کر کہا :” اے اصحاب بیعت رضوان ! اے اصحاب سورۃ بقرہ“ جب بھاگنے والوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو وہ یک بارگی واپس پلٹے اور مشرکین پر ٹوٹ پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو زبردست شکست سے دوچار کیا۔ میدان جنگ مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ ان کے اموال اور عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا“ ﴿ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّـهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ﴾” یقیناً اللہ نے تمہاری مدد فرمائی بہت سی جگہوں میں اور حنین کے دن“ حنین، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان وہ مقام ہے جہاں حنین کا معرکہ ہوا تھا ﴿إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا﴾” جب تمہیں تمہاری کثرت نے گھمنڈ میں مبتلا کردیا پس اس نے تمہیں کچھ فائدہ نہیں دیا“ تمہاری کثرت نے تمہیں تھوڑا یا زیادہ کچھ بھی فائدہ نہ دیا۔ ﴿وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ﴾ ” اور زمین تم پر تنگ ہوگئی۔“ یعنی جب تمہیں شکست ہوئی اور تم پر غم و ہموم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور تم پر زمین تنگ ہوگئی۔ ﴿بِمَا رَحُبَتْ﴾ ” اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود“ ﴿ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ﴾ ” پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ “