قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ
(مسلمانو) ان سے (بلا تامل) جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا، انہیں رسوائی میں ڈالے گا، ان پر تمہیں فتح مند کرے گا اور جماعت مومنین کے دلوں کے سارے دکھ دور کردے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا اور ان فوائد کا ذکر کیا جو کفار کے خلاف جہاد پر مترتب ہوتے ہیں، یہ سب اہل ایمان کے لئے کفار کے خلاف جہاد کی ترغیب ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ﴾ ” ان سے لڑائی کرو، اللہ ان کو سزا دے گا تمہارے ہاتھوں سے“ یعنی قتل کے ذریعے سے ﴿ وَيُخْزِهِمْ ﴾ ” اور رسوا کرے گا ان کو“ یعنی جب اللہ تعالیٰ کفار کے خلاف تمہاری مدد کرے گا۔ یہ وہ دشمن ہیں جن کی رسوائی مطلوب ہے اور اس کی خواہش کی جاتی ہے ﴿ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور تم کو ان پر غالب کر دے گا“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وعدہ اور بشارت تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔ ﴿وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ﴾ ” اور ٹھنڈے کرے گا دل مسلمان لوگوں کے اور نکالے گا ان کے دلوں کی جلن“ کیونکہ کفار کے خلاف ان کے دل غیظ و غضب سے لبریز ہیں۔ ان کے خلاف قتال کرنے اور ان کو قتل کرنے سے اہل ایمان کو ان کے دلوں میں موجود غیظ و غضب اور غم و ہموم سے شفا ملتی ہے۔ کیونکہ وہ ان دشمنوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسر پیکار ہیں اور اللہ کے نور کو بجھانے میں کوشاں ہیں چنانچہ انہیں قتل و رسوا کر کے مومنوں کے دلوں میں موجود غیظ و غضب زائل ہوتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے محبت کرتا ہے اور ان کے احوال کو درخور اعتناء سمجھتا ہے۔ حتیٰ کہ اس نے اہل ایمان کے دلوں کو شفا دینا اور ان کے غیظ و غضب کو زائل کرنا، مقاصد شرعیہ میں شمار کیا ہے۔