كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ (ان) مشرکوں کا عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک عبد ہو؟ ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے قریب (حدیبیہ میں) عہد و پیمان باندھا تھا (اور انہوں نے اسے نہیں توڑا) تو (ان کا عہد ضرور عہد ہے اور) جب تک وہ تمہارے ساتھ (اپنے عہد پر) قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ (اپنے عہد پر) قائم رہو۔ اللہ انہیں دوست رکھتا ہے جو (اپنے تمام کاموں میں) متقی ہوتے ہیں۔
یہ اس حکمت الٰہی کا بیان ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ رَسُولِهِ﴾ ” کیوں کر ہو مشرکین کے لئے کوئی عہد اللہ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک؟“ کیا انہوں نے واجبات ایمان کو قائم کیا ہے؟ یا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کو اذیت دینا چھوڑ دی ہے؟۔۔۔ (بلکہ) انہوں نے حق کے خلاف جنگ کی اور باطل کی مدد کی۔ کیا انہوں نے زمین میں فساد پھیلانے کی بھرپور کوشش کر کے اپنے آپ کو اس بات کا مستحق نہیں ٹھہرا لیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے بری الذمہ ہو، اللہ اور اس کے رسول کے ہاں ان کے لئے کوئی عہد اور ذمہ نہ ہو؟ ﴿إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ﴾ ” سوائے ان کے جن سے تم نے عہد کیا“ یعنی مشرکین میں سے جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا ﴿عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ ” مسجد حرام کے پاس“ پس اس عہد میں۔۔۔ خاص طور پر فضیلت والی اس جگہ پر۔۔۔ ان کے لئے حرمت ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ ان کی رعایت رکھی جائے۔ ﴿فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ﴾ ” پس جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تو تم بھی اپنے عہد پر قائم رہو۔ بے شک اللہ اہل تقویٰ کو پسند کرتا ہے۔“ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :