وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ
اور (اے پیغمبر) اگر مشرکوں میں سے کوئی آدمی آئے اور تم سے امان مانگے تو اسے ضرور امان دو، یہاں تک کہ وہ (اچھی طرح) اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے (باامن) اس کے ٹھکانے پہنچا دو، یہ بات اس لیے ضروری ہوئی کہ یہ لوگ (دعوت حق کی حقیقت کا) علم نہیں رکھتے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد: ﴿فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ﴾ ” تمام اشخاص کے لئے اور تمام احوال میں ایک عام حکم ہے۔ ہاں اگر مصلحت ان میں سے کسی کو قریب کرنے کا تقاضا کرتی ہو تو یہ جائز‘‘ بلکہ واجب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ﴾ ”اگر مشرکین میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے‘‘ یعنی وہ یہ چاہے کہ آپ اس کو ضرر سے بچا لیں تو اس مقصد کے لئے اس کو پناہ دے دیں تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے اور اسلام میں اچھی طرح غور فکر کرلے۔ ﴿ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ﴾ ” تو اس کو پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔“ یعنی پھر اگر وہ اسلام قبول کرلے تو بہتر ورنہ اسے امن کی جگہ پہنچا دیں یعنی وہ جگہ جہاں وہ مامون ہو اور اس کا سبب یہ ہے کہ کفار بے علم لوگ ہیں۔ بسا اوقات ان کا کفر پر قائم رہنا جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے، جب یہ سبب زائل ہوجاتا ہے تو وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت کو احکام میں اس کے نمونے کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ یہ کہ کفار میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ کے کلام کو سننے کی خواہش کرے تو اس کو امان دے دیں۔ اس آیت کریمہ میں اہل سنت و الجماعت کے مذہب پر صریح دلیل ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کلام کیا ہے اور اس نے اس کی اضافت پنی طرف کی ہے جیسے صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہوتی ہے نیز اس سے معتزلہ اور ان کے ہم نواؤں کے مذہب کا بطلان ثابت ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے۔ کتنے ہی دلائل ہیں جو ان کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں، لیکن یہ ان کی تفصیل کا مقام نہیں۔