وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اور جو لوگ بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی میں داخل ہیں۔ (انہیں اپنے سے الگ نہ سمجھو) اور (باقی رہے) قرابت دار تو وہ اللہ کے حکم میں ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں (پس باہمی بھائی چارگی میں ان کے حقوق فراموش نہ کردیے جائیں) بلا شبہ اللہ ہر بات کا علم رکھتا ہے۔
اسی طرح جو لوگ ان مہاجرین و انصار کے بعد آئیں، نیکیوں میں ان کی اتباع، ایمان لائیں، ہجرت کریں اور اللہ کے راستے میں جہاد کریں ﴿فَأُولَـٰئِكَ مِنكُمْ﴾ ” پس وہ لوگ تم ہی میں سے ہیں“ ان کے وہی حقوق ہیں جو تمہارے حقوق ہیں اور ان کے ذمے وہی فرائض ہیں جو تمہارے ذمے ہیں۔ ایمان پر مبنی یہ موالات اسلام کے ابتدائی زمانے میں تھی۔ اس کی بہت بڑی وقعت اور عظیم شان ہے۔ حتیٰ کہ نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان جو اخوت قائم کی تھی، وہ خاص اخوت تھی جو اخوت عامہ و ایمانیہ کے علاوہ ہے،حتیٰ کہ ہے وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما دی ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ﴾ ” اور رشتے دار آپس میں زیادہ حق دار ہیں ایک دوسرے کے،اللہ کے حکم میں“ اس لئے میت کی وراثت صرف انہی لوگوں کو ملے گی جو اصحاب الفروض ہیں یا میت کا عصبہ ہیں۔ اگر میت کا عصبہ اور اصحاب الفروض موجود نہ ہوں تو ذو الارحام میں سے وہ لوگ وارث بنیں گے جو رشتہ میں میت کے سب سے زیادہ قریب ہیں جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔ ﴿فِي كِتَابِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کی کتاب میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی کتاب میں۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“ اس کے احاطۂ علم میں تمہارے احوال بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مناسبت سے تم پر دینی اور شرعی احکام جاری کرتا ہے۔