وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور (دیکھو) اگر (دشمن) صلح کی طرف جھکیں تو چاہیے تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ اور (ہر حال میں) اللہ پر بھروسہ روکھو۔ بلاشبہ وہی ہے جو (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَإِن جَنَحُوا ﴾ ” اگر وہ مائل ہوں“ یعنی جنگ کرنے والے کفار ﴿لِلسَّلْمِ ﴾ ” صلح کی طرف“ یعنی صلح اور ترک قتال کی طرف ﴿ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ﴾ ” تو آپ بھی اس (صلح) کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ کریں“ یعنی جو چیز وہ طلب کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کو دے دو، کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں’ مثلا ً: 1۔ ہر وقت طلب عافیت مطلوب ہے اور اگر وہ طلب عافیت میں ابتداء کرتے ہیں تو اس کا مثبت جواب دینا اولیٰ ہے۔ 2۔ اس سے تمہاری قوتیں جمع ہوں گی اور کسی دوسرے وقت اگر ان کے خلاف جنگ ناگزیر ہوجائے تو تمہاری یہ جنگی استعداد تمہارے کام آئے گی۔ 3۔ اگر تم نے صلح کرلی اور ایک دوسرے سے مامون ہوگئے اور ایک دوسرے کے اطوار کی معرفت حاصل کرلی تو اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ غالب آتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ پس ہر وہ شخص جو عقل و بصیرت سے بہرہ ور ہے اگر وہ انصاف سے کام لیتا ہے تو وہ اسلام کو، اس کے اوامرو نواہی کی خوبی، مخلوق کے ساتھ اس کے حسن معاملہ اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کی بناء پر دوسرے ادیان پر ترجیح دے گا۔ وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی ظلم و جور نہیں اور کثرت سے لوگ اس یک طرف راغب ہوتے ہیں۔ تب یہ صلح کفار کے خلاف مسلمانوں کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس صلح میں صرف ایک بات کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں کفار کا مقصد مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور اس کے ذریعے سے صرف وقت اور مہلت حاصل کرنا نہ ہو۔۔۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آگاہ فرمایا ہے کہ وہ کفار کے مکروفریب کے مقابلے میں ان کے لئے کافی ہے اور اس مکروفریب کا ضرر انہی کی طرف لوٹے گا۔