ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
(اور) یہ بات اس لیے ہوئی کہ اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ جو نعمت وہ کسی گروہ کو عطا فرماتا ہے اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک کہ کود اسی گروہ کے افراد پر اپنی حالت نہ بدل لیں اور اس لیے بھی اللہ (سب کی) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔
﴿ذَٰلِكَ ﴾ وہ عذاب جو اللہ تعالیٰ نے جھٹلانے والی قوموں پر نازل فرمایا تھا اور وہ نعمتیں جو انہیں حاصل تھیں، ان سے سلب کرلی گئی تھیں۔ اس کا سبب ان کے گناہ اور ان کا اطاعت کے رویے کو بدل کر نافرمانی کا رویہ اختیار کرنا تھا۔ ﴿بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ ﴾ ” اللہ بدلنے والا نہیں ہے اس نعمت کو جودی اس نے کسی قوم کو“ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو دین و دنیا کی نعمتیں عطا کرتا ہے تو ان کو سلب نہیں کرتا، بلکہ ان کو باقی رکھتا ہے اور اگر وہ شکر کرتے رہیں تو ان میں اضافہ کرتا ہے۔ ﴿حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ﴾ ” جب تک وہی نہ بدل ڈالیں اپنے دلوں کی بات“ یعنی جب تک کہ وہ اطاعت کے رویے کو بدل کر نافرمانی کا رویہ اختیار نہیں کرتے، پس جب وہ نعمتوں کی ناشکری کرتے اور ان کے بدلے کفر کرتے ہیں۔۔۔ تب اللہ تعالیٰ ان سے ان نعمتوں کو چھین لیتا ہے اور ان نعمتوں کو اس طرح بدل ڈالتا ہے جس طرح انہوں نے اپنے رویے کو بدل ڈالا۔ اس بارے میں اپنے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ حکمت اور عدل و احسان پر مبنی ہے، کیونکہ وہ ان کو عذاب نہیں دیتا، مگر ان کے ظلم کے سبب سے اور بندے اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کو عبرت ناک سزا دیتا ہے، جس سے وہ اپنے اولیا کے دل اپنے طرف کھینچ لیتا ہے۔ ﴿وَأَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔‘‘ بولنے والے جو کچھ بولتے ہیں خواہ وہ آہستہ آواز سے بات کریں یا اونچی آواز میں، اللہ تعالیٰ سب کی باتیں سنتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جو بندوں کے ضمیر میں مخفی اور ان کی نیتوں میں چھپا ہوا ہے، وہ اپنے بندوں کی تقدیر میں وہی کچھ جاری کرتا ہے جس کا اس کا علم اور اس کی مشیت تقاضا کرتے ہیں۔