وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور (پھر) جب ایسا ہوا کہ شیطان نے ان کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما کر کے دکھا دیئے تھے اور کہا تھا آج ان لوگوں میں کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں مگر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوا اور لگا کہنے : مجھے تم سے کچھ سرور کار نہیں، مجھے وہ بات دکھائی دے رہی ہے جو تم نہیں دیکھتے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ (بدعملیوں کی پاداش میں) بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
﴿وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ ﴾ ” اور جب شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کر دکھائے“ یعنی شیطان نے ان کے دلوں میں ان کے اعمال خوبصورت بنا دیئے اور انہیں دھوکے میں ڈال دیا۔ ﴿وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ ﴾ ” اور اس نے کہا آج تم پر کوئی غالب نہیں ہوگا لوگوں میں سے“ کیونکہ تم تعداد، سازوسامان اور ہیئت کے اعتبار سے اتنے طاقتور ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے ساتھی تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ﴿وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ﴾ ” اور میں تمہارا حمایتی ہوں“ میں اس کے مقابلے میں تمہارا ساتھی ہوں جس کے شب خون سے تم ڈرتے ہو، کیونکہ ابلیس سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں قریشی کے پاس آیا، قریش اور بنو مدلج کے درمیان عداوت تھی اس لئے قریش ان کے شب خون سے بہت خائف تھے۔ شیطان نے ان سے کہا ” میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ چنانچہ ان کے دل مطمئن ہوگئے اور وہ غضبناک ہو کر آئے۔ ﴿فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ ﴾ ” پس جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں“ مسلمانوں اور کافروں کا آمنا سامنا ہوا اور شیطان نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ترتیب کے ساتھ فرشتوں کی صف بندی کررہے ہیں تو سخت خوفزدہ ہوا ﴿ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ﴾ ” تو وہ ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گیا۔‘‘ یعنی پسپا ہو کر الٹے پاؤں واپس بھاگا ﴿وَقَالَ ﴾ اور جن کو اس نے دھوکہ اور فریب دیا تھان سے کہنے لگا ﴿ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ ﴾ ” میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں’’میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے“ یعنی میں ان فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں جن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ﴿ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ ﴾ ” مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ مجھے اس دنیا ہی میں عذاب نہ دے دے ﴿وَاللَّـهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ” اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈال کر ان کے سامنے یہ بات مزین کردی ہو کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، آج میں تمہارا رفیق ہوں اور جب وہ ان کو میدان جنگ میں لے آیا تو برات کا اظہار کرتے ہوئے پسپا ہو کر ان کو چھوڑ کر بھاگ گیا،جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ۔ فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ ﴾ (الحشر : 59؍ 16، 17) ” ان کی مثال شیطان کی سی ہے اس نے انسان سے کہا کفر کر، جب اس نے کفر کیا تو کہنے لگا، میں تجھ سے بری ہوں۔ میں تو اللہ، جہانوں کے رب سے ڈرتا ہوں۔ پس دونوں کا انجام یہ ہوگا کہ دونوں جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔‘‘