إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا ۖ وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ ۗ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
(اور اے پیغمبر) یہ وہ دن تھا کہ اللہ نے تجھے خواب میں ان کی تعداد تھوڑی کر کے دکھائی (یعنی یہ دکھلایا کہ اگرچہ بظاہر مسلمانوں سے زیادہ ہوں گے لیکن عزم و ثبات میں تھوڑے ثابت ہوں گے) اور اگر انہیں بہت کر کے دکھاتا تو (مسلمانو) تم ضرور ہمت ہار دیتے اور اس معاملہ میں جھگڑنے لگتے، اللہ نے تمہیں اس صورت حال سے بچا لیا، یقین کرو جو کچھ انسان کے سینوں میں چھپا ہوتا ہے وہ اس کے علم سے پوشیدہ نہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے خواب میں مشرکین کی بہت کم تعداد دکھائی۔ اس بناء پر آپ نے اپنے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو خوشخبری دے دی، اس سے وہ مطمئن اور ان کے دل مضبوط ہوگئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا ﴾ ” اور اگر اللہ ان کو بہت کرکے تمہیں دکھاتا“ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفار کثیر تعداد میں دکھائے ہوتے اور پھر آپ نے اس کی خبر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو دی ہوتی ﴿لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ ﴾ تو تم لوگ جی چھوڑ دیتے اور جو معاملہ تمہیں در پیش تھا اس میں جھگڑنا شروع کردیتے، کوئی کہتا کہ آگے بڑھ کر کفار سے لڑائی کرو اور کوئی اس رائے کے خلاف ہوتا اور جھگڑا کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ سَلَّمَ ﴾ ” اور لیکن اللہ نے بچا لیا“ یعنی اللہ نے تم پر لطف و کرم کیا ﴿ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴾ ” بے شک وہ سینوں کی باتوں تک سے واقف ہے۔‘‘ یعنی تمہارے سینوں میں ثابت قدمی یا بے صبری، سچائی یا جھوٹ جو کچھ بھی ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں کی اس کیفیت کو جان لیا جو تم پر اس کے لطف و احسان اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب کی صداقت کا باعث بنی اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی نگاہوں میں ان کے دشمن کو تھوڑا کرکے دکھایا اور اے مومنو ! تمہیں ان کی نظروں میں تھوڑا کرکے دکھایا۔ چنانچہ دونوں گروہوں میں سے ہر گروہ کو اپنا مدمقابل تھوڑا نظر آتا تھا، تاکہ دونوں میں سے ہر ایک، دوسرے پر پیش قدمی کرنے میں تامل نہ کرے۔