سورة الانفال - آیت 42

إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ وہ دن تھا کہ تم ادھر قریب کے ناکے پر تھے، ادھر دشمن دور کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نچلے حصے میں تھا (یعنی سمندر کے کنارے نکل گیا تھا) اور اگر تم نے آپس میں لڑائی کی بات ٹھہرائی ہوتی تو ضرور میعاد سے گزیز کرتے (کیونکہ تمہیں دشمنوں کی کثرت سے اندیشہ تھا اور تم میں سے بہتوں کی نظر قافلہ پر تھی) لیکن اللہ نے دونوں لشکروں کو بھڑا دیا تاکہ جو بات ہونے والی تھی اسے کر دکھائے، نیز اس لیے کہ جسے ہلاک ہونا ہے اتمام حجت کے بعد ہلاکت ہو اور جو زندہ رہنے والا ہے اتمام حجت کے بعد زندہ رہے اور بلا شبہ اللہ سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا ﴾ ” جس وقت تم قریب کے ناکے پر تھے“ یعنی جب تم مدینہ سے قریب ترین وادی میں تھے۔ ﴿ وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ ﴾ ” اور وہ (کفار) مدینہ سے بعید ترین وادی میں تھے“ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں گروہوں کو ایک ہی وادی میں جمع کردیا ﴿وَالرَّكْبُ ﴾ ” اور قافلہ“ یعنی وہ تجارتی قافلہ جس کے تعاقب میں تم نکلے تھے، مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ کچھ اور ہی تھا ﴿أَسْفَلَ مِنكُمْ ﴾ ” تم سے نیچے کی طرف تھا“ یعنی وہ ساحل کے ساتھ ساتھ تھا۔ ﴿وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ ﴾ ” اور اگر تم آپس میں قرارداد کرلیتے“ اگر تم نے اور کفار نے اس حال میں اور اس وصف کے ساتھ ایک دوسرے سے وعدہ کیا ہوتا ﴿لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ﴾ ” تو نہ پہنچتے وعدے پر ایک ساتھ“ یعنی مقررہ میعاد میں تقدیم و تاخیر یا جگہ کے انتخاب وغیرہ میں کسی عارضہ کی بناء پر تم میں اختلاف واقع ہوجاتا جو تمہیں میعاد مقررہ پر پہنچنے سے روک دیتا۔ ﴿وَلَـٰكِن ﴾ ”اور لیکن“ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس حال میں اکٹھا کردیا۔ ﴿ لِّيَقْضِيَ اللَّـهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ﴾ ” تاکہ اللہ اس امر کو پورا کرے (جو روز ازل سے مقرر ہے) جس کا واقع ہونا لابدی ہے۔‘‘ ﴿ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ  ﴾ ” تاکہ مرے جس کو مرنا ہے دلیل کے وا ہونے کے بعد“ تاکہ معاند حق کے خلاف حجت اور دلیل قائم ہوجائے کہ اگر وہ کفر اختیار کرے تو پوری بصیرت کے ساتھ اختیار کرے اور اس کے بطلان کا اسے پورا یقین ہو اور یوں اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی عذر نہ ہو۔ ﴿وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ﴾ ” اور زندہ رہے جس کو جینا ہے دلیل کے واضح ہونے کے بعد“ تاکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں پر جو حق کے دلائل واضح کئے ہیں اس کی بناء پر اہل ایمان کے یقین اور بصیرت میں اضافہ ہو۔ یہ دلائل و براہین عقل مندوں کے لئے یاد دہانی ہے۔ ﴿وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ  ﴾ ” بے شک اللہ سننے والا ہے“ تمام آوازوں کو، زبانوں کے اختلاف اور مخلوق کی مختلف حاجات کے باوجود ﴿عَلِيمٌ ﴾ ” جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری اعمال، ضمیر میں چھپی ہوئی نیتوں اور بھیدوں، غائب اور حاضر ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔