قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ
(اے پیغمبر) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تم ان سے کہہ دو اگر وہ (اب بھی) باز آجائیں تو جو کچھ گزر چکا معاف کردیا جائے لیکن اگر وہ پھر (ظلم و جنگ کی طرف) لوٹے تو ( اس بارے میں) پچھلوں کا طور طریقہ اور اس کا نتیجہ گزر چکا ہے (اور ہی انہیں بھی پیش آکر رہے گا)
یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم ہے کہ ان کفر اور ان کا دائمی عناد اسے اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ انہیں رشد و ہدایت کے راستے کی طرف بلائے اور انہیں گمراہی اور ہلاکت کی راہوں پر چلنے سے منع کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَنتَهُوا ﴾ ”کفار سے کہہ دیجیے اگر وہ باز آجائیں۔“ یعنی اگر وہ کفر سے باز آجائیں اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک لہ، کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔ ﴿ يُغْفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ ” تو بخش دیا جائے گا جو کچھ ہوچکا ہے“ یعنی ان سے جن جرائم کا ارتکاب ہوچکا ہے ﴿ وَإِن يَعُودُوا ﴾ ” اگر وہ اعادہ کریں۔“ یعنی اگر وہ اپنے کفر اور عناد کا اعادہ کریں ﴿ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ ﴾ ” تو تحقیق گزر چکا ہے طریقہ پہلو کا“ یعنی رسولوں کو جھٹلانے والی قوموں کو ہلاک کرنے کا۔ پس وہ بھی اسی عذاب کا انتظار کریں جو ان معاندین حق پر نازل ہوا تھا۔۔۔ عنقریب ان کے پاس وہی خبریں آئیں گی جن کا یہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ یہ خطاب تو جھٹلانے والوں سے تھا۔ رہا وہ خطاب جو اہل ایمان کو کفار کے ساتھ معاملہ کرنے کا حکم دیتے وقت اہل ایمان کے ساتھ تھا، تو اس میں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا