وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ
اور خانہ میں ان کی نماز اس کے سوا کیا تھی کہ سیٹیاں بجائیں اور تالیاں پیٹیں، تو دیکھو جیسے کچھ کفر کرتے رہے ہو، اب (اس کی پاداش میں) عذاب کا مزہ چکھ لو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسجد حرام صرف اس لئے بنائی ہے کہ اس میں اس کے دین کو قائم کیا جائے اور اس میں خالص اسی کی عبادت کی جائے۔ پس اہل ایمان ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی اور رہے یہ مشرکین جنہوں نے لوگوں کو مسجد حرام سے روکا تو ان کی نماز، جو کہ سب سے بڑی عبادت ہے، ﴿ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً﴾ ” سیٹیوں اور تالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں“ جو کہ جہلا اور کم عقل لوگوں کا فعل ہے جن کے دل اپنے رب کی تعظیم سے خالی ہوتے ہیں، جو اپنے رب کے حقوق کی معرفت سے تہی دست ہوتے ہیں اور ان کے دل میں افضل ترین خطہ زمین کا کوئی احترام نہیں ہوتا۔ جب ان کی نماز کا یہ حال ہے تو ان کی بقیہ عبادات کا کیا حال ہوگا؟ پس ان میں کوئی سی چیز ایسی ہے جس کی بنا پر وہ اپنے آپ کو ان مومنوں سے زیادہ بیت اللہ کا مستحق سمجھتے ہیں، جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں، جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں اور ان میں وہ تمام اوصاف حمیدہ اور افعال سدیدہ موجود ہیں جو ان کے رب نے بیان فرمائے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے محترم گھر کا وارث بنایا اور اس پر ان کو قدرت عطا کی۔۔۔ اور پھر ان کو اس پر قدرت عطا کرنے کے بعد فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا﴾(التوبة:9؍28)” اے مومنو ! مشرکین تو ناپاک ہیں، اس لئے وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔“ اور یہاں فرمایا : ﴿فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ﴾ ” اپنے کفر کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو۔ “