سورة البقرة - آیت 4

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

نیز وہ لوگ جو اس (سچائی) پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو تم پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل ہوئی ہے اور ان تمام (سچائیوں پر) جو تم سے پہلے (یعنی پیغمبر اسلام سے پہلے) نازل ہوچکی ہیں اور (ساتھی ہی) آخرت (کی زندگی) کے لیے بھی ان کے اندر یقین ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ﴾” اور وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا“ اس سے مراد قرآن اور سنت ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا : ﴿وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (النساء :113؍3) ” اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت (یعنی سنت) نازل کی۔“ پس اصحاب تقویٰ ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسم) لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی میں تفریق نہیں کرتے کہ اس کے کسی حصے پر تو ایمان لے آئیں اور کسی حصے پر اپنے انکار یا ایسی تاویل کے ذریعے سے جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ ہو، ایمان نہ لائیں۔ جیسا کہ اہل بدعت کا وتیرہ ہے جو قرآن و سنت کی ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں جو ان کے قول کے خلاف ہوتی ہیں جو کہ درحقیقت ان نصوص کے معانی کی تصدیق نہیں ہے۔ وہ اگرچہ ان نصوص کے ظاہری الفاظ کی تصدیق کرتے ہیں مگر ان پر حقیقی طور پر ایمان نہیں لاتے۔ ﴿وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ﴾” اور اس پر جو آپ سے پہلے اتارا گیا“ یہ آیت کریمہ گزشتہ تمام کتابوں پر ایمان رکھنے پر مشتمل ہے اور گزشتہ کتابوں پر ایمان لانا اس بات کو متضمن ہے کہ انبیائے سابقین پر ایمان لایا جائے۔ نیز ان حقائق پر ایمان لایا جائے جن پر یہ الہامی کتابیں خاص طور پر تورات، انجیل اور زبور مشتمل ہیں۔ یہ اہل ایمان کی خصوصیت ہے کہ وہ تمام کتب سماویہ اور تمام انبیاء و مرسلین پر ایمان لاتے ہیں ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ ﴿وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ﴾” اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“ آخرت ان تمام امور کا نام ہے جو مرنے کے بعد انسان کو پیش آئیں گے۔ عمومی ایمان کے ذکر کے بعد آخرت پر ایمان کو خاص طور پر ذکر کیا ہے، کیونکہ آخرت پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ایک اہم رکن ہے، نیز آخرت پر ایمان رغبت، خوف اور اعمال صالحہ کا باعث ہے۔ اور (یقین) ایسے علم کامل کو کہتے ہیں جس میں ادنیٰ سا بھی شک نہ ہو۔ یقین عمل کا موجب ہوتا ہے۔