يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
مسلمانو اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو، جب وہ پکارتا ہے تاکہ تمہیں (روحانی موت کی حالت سے نکال کر) زندہ کردے اور جان لو کہ (بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ) اللہ (اپنے ٹھہرائے ہوئے قوانین و اسباب کے ذریعہ) انسان اور اس کے کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے وار جان لو کہ (آخر کار) اسی کے حضور جمع کیے جاؤ گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو ان امور کا حکم دیتا ہے جو ان کے ایمان کا تقاضا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہنا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جو حکم دیا ہے اسکی تعمیل کرنا، اس کی تعمیل کے لئے سبقت کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا اور انہوں نے جس چیز سے روکا ہے اس سے باز رہنا اور اس سے اجتناب کرنا۔ ﴿ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾” جس وقت بلائے تم کو اس کام کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے“ یہ ہر اس امر کا وصف لازم ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دیتے ہیں اور نیز یہ اس کے حکم کے فائدے اور حکمت کو بیان کرتا ہے، کیونکہ قلب و روح کی زندگی کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کی عبودیت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے دائمی التزام پر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک نہ کہنے پر ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ﴾” اور جان لو کہ اللہ آڑ بن جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان“ اس لئے جب اللہ تعالیٰ کا حکم پہلی بار تمہارے پاس آئے، تو اس کو ٹھکرانے سے بچو کیونکہ پھر اگر اس کے بعد اس کا ارادہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کے درمیان اور تمہارے درمیان حائل ہو جائے گا اور تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ جیسے چاہتا ہے اسے ادل بدل کرتا ہے اور جیسے چاہتا ہے اس میں تصرف کرتا ہے۔ پس بندے کو بہت کثرت سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ( يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ (1)اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قَلْبِي عَلَى طَاعَتِكَ) (2) (1) [المسند: 3؍ 112] (2)[صحيح مسلم، القدر، ح: 2645] فرمایا : ﴿وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾ ” اور یہ کہ تم سب اس کے روبرو جمع کئے جاؤ گے۔“ یعنی تم سب اس دن اکٹھے کئے جاؤ گے جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں وہ نیکو کاروں کو ان کی نیکی کی جزا اور بدکاروں کو ان کی بدی کی سزا دے گا۔