إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ
(اے پیغمبر) یہ وہ وقت تھا کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں پر وحی کی تھی میں تمہارے ساتھ ہوں (یعنی میری مدد تمہارے ساتھ ہے) پس مومنوں کو استوار رکھو، عنقریب ایسا ہوگا کہ میں کافروں کے دلوں میں (مومنوں کی) دہشت ڈال دوں گا۔ سو (مسلمانو) ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ، ان کے ہاتھ پاؤں کی ایک ایک انگلی پر ضرب لگاؤ۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نصرت تھی کہ اس نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی۔ ﴿أَنِّي مَعَكُمْ﴾ ” کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔“ یعنی میری مدد، نصرت اور تائید تمہارے ساتھ ہے۔ ﴿فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” پس ثابت رکھو تم دل ایمان والوں کے“ یعنی دشمن کے مقابلے میں ان کے دلوں کو مضبوط کرو اور ان کے دلوں کو جرأت سے لبریز کر دو اور انہیں جہاد کی ترغیب دو ﴿سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ ﴾ ” میں ڈال دوں گا کافروں کے دلوں میں دہشت“ جو کافروں کے مقابلے میں تمہارا سب سے بڑا لشکر ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے اور کفار کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے تو کفار ثابت قدم نہیں رہ سکتے اور اللہ تعالیٰ ان کی گردنیں اہل ایمان کے قبضے میں دے دیتا ہے۔ ﴿فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ﴾’’پس تم ان کی گردنیں مارو“ ﴿وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ﴾ ” اور کاٹو ان کی پور پور“ یعنی ان کے جوڑ جوڑ پر ضرب لگاؤ۔۔۔۔۔۔ یہ خطاب یا تو ان فرشتوں سے ہے جن کی طرف وحی کی گئی تھی کہ وہ اہل ایمان کے دل مضبوط کریں، تب یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غزوہ بدر میں فرشتے قتال میں شریک ہوئے۔۔۔ یا یہ خطاب اہل ایمان سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا حوصلہ بڑھاتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے کہ وہ مشرکین کو کیسے قتل کریں اور یہ کہ وہ ان پر رحم نہ کریں۔