وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
یاد رکھو اہل کتاب میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو چاہتے ہیں، تمہیں ایمان کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹا دیں، اور اگرچہ ان پر سچائی ظاہر ہوچکی ہے لیکن پھر اس حسد کی وجہ سے جس کی جلن ان کے اندر ہے، پسند نہیں کرتے کہ تم راہ حق میں ثابت قدم رہو۔ پس چاہیے کہ (ان سے لڑنے جھگرنے میں اپنا وقت ضائع نہ کرو، اور) عفو و درگزر سے کام لو۔ یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ظاہر ہوجائے (اور وہ حق کو فتح مند کرکے بتلا دے کہ کون حق پر تھا اس کس کی جگہ باطل پرستی کی جگہ تھی) بلاشبہ وہ ہر بات پر قادر ہے
پھر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب میں سے بہت سے لوگوں کے حسد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ﴿ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ښ﴾ ” کاش تمہیں تمہارے ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں۔“ اس کے لیے انہوں نے پوری کوشش اور فریب کاری کے جال بچھائے، مگر ان کے مکر و فریب پلٹ کر انہی پر پڑگئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾(آل عمران : 3؍ 72) ” اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے وہ کتاب جو اہل ایمان پر نازل کی گئی ہے اس پر دن کے پہلے حصے میں ایمان لاؤ اور اس کے آخر میں انکار کر دو، تاکہ وہ اسلام سے باز آجائیں۔“ یہ ان کا حسد تھا جو ان کے اندر سے پھوٹ رہا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہود کی برائی اور بدخلقی کے مقابلے میں عفو اور درگزر سے کام لینے کا حکم دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کا حکم دے دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو شفا بخشی، چنانچہ اہل ایمان نے ان یہودیوں میں سے جو قتل کے مستحق تھے ان کو قتل کیا، جو قیدی بنائے جا سکے ان کو قیدی بنا لیا اور کچھ کو ملک بدر کردیا۔ ﴿’ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “