يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(اے پیغمبر) لوگ تم سے پوچھتے ہیں مال غنیمت کے بارے میں کیا ہونا چاہیے؟ (١) کہہ دو مال غنیمت دراصل اللہ اور اسکے رسو کا ہے، پس اگر تم مومن ہو تو چاہیے کہ (اس کی وجہ سے آپس میں جھگڑا نہ کرو) اللہ سے ڈرو اپنا باہمی معاملہ درست رکھو اور اسکی اور اس کے رسولوں کی اطاعت میں سرگرم ہوجاؤ۔
﴿الْأَنفَالِ﴾ سے مراد غنائم ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کفار کے مال میں سے امت کو عطا کی ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کی یہ آیات کریمات غزوہ بدر کے بارے میں نازل ہوئیں۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو کفار سے اولین مال غنیمت حاصل ہوا، تو اس کے بارے میں بعض مسلمانوں میں نزاع واقع ہوگیا چنانچہ انہوں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ﴾ ” وہ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں“ ان کو کیسے تقسیم کیا جائے اور انہیں کن لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ ﴿قُلِ ﴾ آپ ان سے کہہ دیجیے !﴿الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ﴾ ” غنیمتیں اللہ اور رسول کے لئے ہیں“ وہ جہاں چاہیں گے ان غنائم کو خرچ کریں گے۔ پس تمہیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں، بلکہ تم پر فرض ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردیں تو تم ان کے فیصلے پر راضی رہو اور ان کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دو اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہے۔﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ﴾ ” پس اللہ سے ڈور“ اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے۔ ﴿وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ﴾” اور صلح کرو آپس میں“ یعنی تم آپس کے بغض، قطعی تعلقی اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے کی، آپس کی مودت، محبت اور میل جول کے ذریعے سے اصلاح کرو۔ اس طرح تم میں اتفاق پیدا ہوگا اور قطع تعلق، مخاصمت اور آپس کے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ ہوجائے گا۔ آپس کے معاملات کی اصلاح میں حسن اخلاق اور برا سلوک کرنے والوں سے درگزر کا بہت بڑا دخل ہے اس سے دلوں کا بغض اور نفرت دور ہوجاتی ہے اور ان تمام باتوں کی جامع بات یہ ہے﴿وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو“ کیونکہ ایمان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا تقاضا کرتا ہے جیسے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت نہیں کرتا وہ مومن نہیں، جس کی اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول ناقص ہے اس کا ایمان بھی اتنا ہی ناقص ہے۔ چونکہ ایمان کی دو قسمیں ہیں : (١) ایمان کامل، جس پر مدح و ثنا اور کامل فوز و فلاح مترتب ہوتی ہے۔ (٢) نقاص ایمان