أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
(اگر وہ ایک مرتبہ تمہاری ہدایت کے لیے حسب ضرورت احکام بھیج سکتا ہے تو یقینا اس کے بعد بھی بار بار ایسا کرسکتا ہے) اور پھر کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی سلطانی ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہارا دوست اور مددگار ہو
اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی آگاہ فرمایا کہ جو کوئی نسخ میں جرح و قدح کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قدرت میں عیب نکالتا ہے۔ فرمایا : ﴿أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِۭ﴾ ” کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے؟“ جب اللہ تعالیٰ تمہارا مالک ہے وہ تمہارے اندر اسی طرح تصرف کرتا ہے جیسے نیکو کار، مہربان آقا اپنی اقدار میں، اپنے احکام میں اور اپنے نواہی میں تصرف کرتا ہے۔ پس جیسے اس پر اپنے بندوں کی بابت تقدیری فیصلے کرنے پر پابندی نہیں ہے اسی طرح اللہ پر ان احکام کے بارے میں بھی اعتراض صحیح نہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیے ہیں۔ پس بندہ اپنے رب کے امر دینی اور امرتکوینی کا پابند ہے، اسے اعتراض کا کیا حق ہے؟ نیز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ولی (کار ساز) اور ان کا مددگار ہے۔ پس وہ ان کے لیے منفعت کے حصول میں ان کا والی اور سرپرست ہے اور ضرر کو ان سے دور کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ولایت (کار سازی) کا حصہ ہے کہ اس نے ان کے لیے ایسے احکام مشروع کیے، جن کا تقاضا اس کی حکمت اور لوگوں کے ساتھ اس کی رحمت کرتی ہے۔ جو کوئی اس نسخ میں غور کرتا ہے جو قرآن و سنت میں واقع ہوا ہے تو اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت ہے، اس کے بندوں پر رحمت ہے اور اپنے لطف و کرم سے انہیں ان کے مصالح تک ایسے طریقے سے پہنچانا ہے کہ وہ اسے سمجھ ہی نہیں پاتے۔