يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(اے پیغمبر) لوگ تم سے (قیامت کے) آنے والے وقت کی نسبت پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کب قرار پائے گا؟ تم کہہ دو اس کا علم تو میرے پروردگار کو ہے، وہی ہے جو اس بات کو اس کے وقت پر نمایاں کرنے و الا ہے۔ وہ بڑا بھاری حادثہ ہے جو آسمانوں اور زمین میں واقع ہوگا، وہ تم پر نہیں آئے گا مگر اچانک۔ (اے پیغمبر) یہ لوگ تم سے اس طرح پوچھ رہے ہیں گویا تم اس کی کاوش میں لگے ہوئے ہو، تم کہو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ صرف خدا ہی یہ ابت جانتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو اس حقیقت سے انجان ہیں۔
﴿يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ﴾ ” یہ آپ سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔“ وہ اس گھڑی کے بارے میں آپ سے سوال کرنے کے بہت خواہش مند ہیں گویا کہ آپ اس سوال کے متعلق پورا علم رکھتے ہیں اور انہوں نے اس بات کو نہیں جانا کہ باوجود اس بات کے کہ آپ کو اپنے رب کی بابت کمال علم حاصل ہے اور یہ کہ رب سے کون سی بات پوچھنی فائدہ مند ہے، آپ ایسے سوال کی پروا نہیں کرتے تھے جو مصلحت سے خالی ہوتا اور جس کا جاننا ناممکن ہوتا، قیامت کی گھڑی کو کوئی رسول جانتا ہے نہ کوئی مقرب فرشتہ اور اس کا تعلق ایسے امور سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل حکمت اور وسیع علم کی بنا پر مخلوق سے مخفی رکھا ہے۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّـهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾” کہہ دیجیے ! اس قیامت کا علم اللہ کے پاس ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“ اسی لئے وہ اس چیز کے خواہش مند ہوتے ہیں جس کی خواہش کرنا ان کے لئے مناسب نہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو ان اہم امور کے بارے میں تو سوال کرتے، جن کے بارے میں علم حاصل کرنا ان پر فرض ہے اور ان امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں جن کے بارے میں حصول علم کی کوئی سبیل نہیں ہوتی، نہ ان سے یہ مطالبہ ہی کیا جائے گا کہ انہوں نے اس کا علم حاصل کیوں نہیں کیا۔