سورة الاعراف - آیت 165

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جب ایسا ہوا کہ ان لوگوں نے وہ تمام نصیحتیں بھلا دیں جو انہیں کی گئی تھیں تو ہمارا مواخذہ نمودار ہوگیا، ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے مگر شرارت کرنے والوں کو ایسے عذاب میں ڈالا کہ محرومی و نامرادی میں مبتلا کرنے والا عذاب تھا۔ بہ سبب ان نافرمانیوں کے جو وہ کیا کرتے تھے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ﴾ ” جب انہوں نے اس چیز کو بھلا دیا جس کی ان کو یاد دہانی کرائی گئی تھی“ اور وہ اپنی گمراہی اور نافرمانی پر جمے رہے۔ ﴿ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ﴾” ہم نے ان کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے“ اپنے بندوں کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے کہ جب عذاب نازل ہوتا ہے تو وہ لوگ اس عذاب سے نجات پاتے ہیں جو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے رہے ہیں۔ ﴿وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ ” اور پکڑ لیا ہم نے ظالموں کو“ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ﴿بِعَذَابٍ بَئِيسٍ﴾” برے عذاب میں“ یعنی سخت عذاب میں ﴿بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴾ ” اس پاداش میں کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔ “ رہا وہ گروہ جو برائی سے روکنے والوں سے کہا کرتا تھا : ﴿ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّـهُ مُهْلِكُهُمْ ﴾ ” تم ان لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا ہے۔“۔۔۔ اہل تفسیر میں ان کی نجات اور ان کی ہلاکت کے بارے میں اختلاف ہے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ نجات پانے والوں میں شامل تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہلاکت کو صرف ظالموں کیساتھ مخصوص کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ظالموں میں ذکر نہیں کیا۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سزا خاص طور پر صرف ان لوگوں کو ملی تھی جنہوں نے سبت کی پابندی کو توڑا تھا، نیز نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا فرض کفایہ ہے جب کچھ لوگ اس فرض کو ادا کر رہے ہوں تو دوسرے لوگوں سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے اور ان کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اس برائی کو برائی سمجھتے ہوئے اسے ناپسند کریں۔ علاوہ ازیں انہوں نے (ان بدکردار لوگوں پر) ان الفاظ میں نکیر کی ﴿لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّـهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا﴾ ” تم ان لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا یا انہیں سخت عذاب دینے والا ہے۔“ پس انہوں نے ان پر اپنی ناراضی کا اظہار کردیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں ان کا یہ فعل سخت ناپسند تھا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو سخت سزا دے گا۔