سورة الاعراف - آیت 141

وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۖ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (خدا فرماتا ہے، اے بنی اسرائیل) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دلائی۔ وہ تمہیں سخت عذابوں میں مبتلا کرتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو (اپنی چاکری کے لیے) زندہ چھوڑ دیتے، اس صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی ہی آزمائش تھی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اپنے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ ﴾ ” جب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی۔“ یعنی جب ہم نے تمہیں فرعون اور آل فرعون سے نجات دی ﴿ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ﴾ ” دیتے تھے وہ تم کو برا عذاب“ انہوں نے تم پر بدترین عذاب مسلط کر رکھا تھا۔ ﴿يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم ﴾” کہ مار ڈالتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ رکھتے تھے تمہاری عورتوں کو اور اس میں“ یعنی ان کے عذاب سے نجات میں ﴿بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ﴾ ”تمہارے رب کی طرف سے جلیل ترین نعمت اور بے پایاں احسان تھا۔“ یا اس کا معنی یہ ہے کہ آل فرعون کی طرف سے تم پر جو عذاب مسلط تھا اس میں ” تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لئے ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔“ پس جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو وعظ و نصیحت کی تو وہ اس سے باز آگئے۔