قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
تب موسیٰ نے اپنی قوم کو (وعظ کرتے ہوئے) کہا، خدا سے مدد مانگو اور (اس راہ میں) جمے رہو، بلا شبہ زمین (کی پادشاہت صرف) خدا ہی کے لیے ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام کار انہی کے لیے ہے جو متقی ہوں گے۔
﴿قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ﴾(موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا۔“ ان حالات میں، جن میں وہ کچھ کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر وہ ان حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو وصیت کرتے ہوئے کہا : ﴿اسْتَعِينُوا بِاللَّـهِ﴾” اللہ سے مدد طلب کرو“ یعنی اس چیز کے حصول میں جو تمہارے لئے فائدہ مند ہے اور اس چیز کو دور ہٹانے میں جو تمہارے لئے ضرر رساں ہے، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو۔ اس پر اعتماد کرو، وہ تمہارے معاملے کو پورا کرے گا۔ ﴿وَاصْبِرُوا﴾ ” اور صبر کرو۔“ یعنی مصائب و ابتلاء کے دور ہونے کی امید کرتے ہوئے صبر کا التزام کرو۔ ﴿إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّـهِ﴾ ” زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے“ فرعون اور اس کی قوم کی ملکیت نہیں کہ وہ اس زمین میں حکم چلائیں ﴿ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ ” وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، بناتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق زمین کی حکمرانی باری باری لوگوں کو عطا کرتا ہے۔ مگر اچھا انجام متقین کا ہوتا ہے کیونکہ اس حکمرانی کی مدت میں اگر ان کو امتحان میں ڈالا جائے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور اس کی حکمت کے تحت، تب بھی بالاخر کامیابی انہی کے لئے ہے۔ ﴿وَالْعَاقِبَةُ﴾ ” اور اچھا انجام“﴿لِلْمُتَّقِينَ﴾ ” متقین کیلئے ہے“ یعنی جو اپنی قوم کے بارے میں تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ یہ بندہ مومن کا وظیفہ ہے کہ مقدور بھر ایسے اسباب مہیا کرتا رہے جن کے ذریعے سے وہ دوسروں کی طرف سے دی ہوئی اذیت سے اپنی ذات کو بچا سکے اور جب وہ ایسا کرنے سے عاجز آجائے تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے اور اچھے وقت کا انتظار کرے۔