سورة الاعراف - آیت 126

وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہمارا قصور اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے سامنے آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے۔ (ہماری دعا خدا سے یہ ہے کہ) پروردگار ! ہمیں صبر و شکیبائی سے معمور کردے (تاکہ زندگی کی کوئی اذیت ہمیں اس راہ میں ڈگمگا نہ سکے) اور ہمیں دنیا سے اس حالت میں اٹھا کہ تیرے فرمانبردار ہوں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَمَا تَنقِمُ مِنَّا﴾ ” تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے۔“ یعنی وہ کون سی بری بات ہے جس پر تو ہماری نکیر کرتا ہے اور ہمیں دھمکی دیتا ہے۔ ہمارا کوئی گناہ نہیں ﴿ إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا﴾ ” سوائے اس کے کہ ہم ایمان لائے اپنے رب کی آیتوں پر جب وہ ہمارے پاس آئیں“ پس اگر یہ گناہ ہے جس کو معیوب کہا جائے اور اس کے مرتکب کو سزا کا مستحق سمجھا جائے تو ہم نے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ پھر جادوگروں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انہیں ثابت قدمی عطا کرے اور انہیں صبر سے نوازے۔ ﴿رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا﴾ ” ہم پر صبر عظیم کا فیضان کر“۔۔۔ جیسا کہ (صَبْرًا) میں نکرہ کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔۔۔ کیونکہ یہ بہت بڑا امتحان ہے جس میں جا ن کے جانے کا بھی خطرہ ہے۔ پس اس امتحان میں صبر کی سخت ضرورت ہوتی ہے تاکہ دل مضبوط ہو اور مومن اپنے ایمان پر مطمئن ہو اور قلب سے بے یقینی کی کیفیت دور ہوجائے۔ ﴿وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴾ ” اور ہمیں مسلمان مارنا۔“ یعنی ہمیں اس حالت میں وفات دے کہ ہم تیرے تابع فرمان بندے اور تیرے رسول کی اطاعت کرنے والے ہوں۔