وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اور اگر بستیوں کے رہنے والے (جن کی سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں) ایمان لاتے اور برائیوں سے بچتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے ضرور ان پر کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا پس اس کمائی کی وجہ سے جو انہوں نے (اپنے اعمال کے ذریعہ) حاصل کی تھی ہم نے انہیں پکڑ لیا (اور وہ مبتلائے عذاب ہوئے)۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں انبیاء و مرسلین کو جھٹلانے والے گروہ کے بارے میں ذکر فرمایا کہ ان کو نصیحت اور تنبیہ کیلئے مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے اور مکرو استدراج کے طور پر انہیں آسانی اور فراخی عطا کی جاتی ہے۔ وہاں یہ بھی فرمایا کہ اگر بستیوں والے صدق دل سے ایمان لے آتے، ان کے اعمال اس ایمان کی تصدیق کرتے اور ظاہر و باطن میں تقویٰ سے کام لے کر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ تمام چیزوں کو چھوڑ دیتے تو ان پر زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیئے جاتے۔ پس اللہ تعالیٰ آسمان سے ان پر لگاتار بارش برساتا اور زمین سے ان کے لئے وہ کچھ اگاتا جس پر ان کی اور ان کے جانوروں کی معیشت کا دار و مدار ہے اور انہیں بغیر کسی تنگی اور بغیر کسی محنت اور مشقت کے وافر رزق عطا کرتا، مگر وہ ایمان لائے نہ انہوں نے تقویٰ اختیار کیا ﴿ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾ ” پس ہم نے ان کی بد اعمالیوں کے سبب سے ان کو عذاب اور مصائب میں مبتلا کردیا۔“ ان سے برکات چھین لیں اور کثرت کے ساتھ ان پر آفتیں نازل کیں۔ یہ ان کے اعمال کی سزا کا کچھ حصہ ہے۔ ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے برے اعمال کی پوری سزا دنیا ہی میں دے دے تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہ بچے گا۔ ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾(الروم :30؍41) ” بحر و بر میں لوگوں کی بداعمالیوں کے سبب سے فساد پھیل گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔ “