ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوا وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پھر جب ایسا ہوا کہ وہ (خوشحالیوں میں) خوب بڑھ گئے اور ( پاداش عمل سے بے پروا ہوکر) کہنے لگے ہمارے بزرگوں پر سختی کے دن بھی گزرے راحت کے بھی (یعنی دنیا میں اچھی بری حالتیں پیش آتی ہی رہتی ہیں، جزائے عمل کوئی چیز نہیں) تو اچانک ہمارے عذاب کی پکڑ میں آگئے اور وہ بالکل بے خبر تھے۔
﴿بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ﴾ ” بدل دی ہم نے برائی کی جگہ بھلائی“ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے رزق میں اضافہ کردیا، ان کو جسمانی عافیت دی اور ان سے آزمائش اور تکالیف کو دور کردیا۔ ﴿حَتَّىٰ عَفَوا ﴾” حتیٰ کہ ان کی تعداد زیادہ ہوگئی“ ان کے رزق میں اضافہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل و کرم میں مزے اڑانے لگے اور وہ اس بات کو بھول گئے کہ ان پر کیا مصیبتیں نازل ہوئی تھیں۔ ﴿وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ ﴾ ” اور انہوں نے کہا، کہ پہنچتی رہی ہے ہمارے باپ دادا کو بھی مصیبت اور خوشی“ یعنی رنج و راحت کا آنا تو ایک عادت جا ریہ ہے، اولین و آخریں تمام لوگوں پر نج و راحت کے حالات آتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ راحت میں ہوتے ہیں اور کبھی رنج و غم سے دوچار ہوتے ہیں، انقلابات زمانہ اور گردش ایام کے ساتھ ساتھ کبھی وہ خوش ہوتے ہیں اور کبھی غم زدہ۔ وہ ان مصائب اور راحتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت اور تنبیہ سمجھتے ہیں نہ استدراج اور نکیر۔ یہاں تک کہ جو کچھ ان کو عطا کیا گیا تھا اسی میں شاداں و فرحاں رہے اور دنیا کے لئے سب سے زیادہ خوش کن چیز تھی۔ ﴿ فَأَخَذْنَاهُم﴾ ” کہ ہم نے (عذاب کے ذریعے سے) ان کو پکڑ لیا۔“ ﴿ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴾ “ اچانک اور ان کو خبر نہ تھی“ یعنی ہلاکت ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو کچھ عطا کیا ہے وہ اسے حاصل کرنے پر قادر تھے اور یہ سب کچھ ان سے زائل ہوگا نہ ان سے واپس لیا جائے گا۔