قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ
اس پر (١) قوم کے سرداروں نے جنہیں (اپنی دنیوی طاقتوں کا) گھمنڈ تھا کہا اے شعیب ! (دو باتوں میں سے ایک بات ہو کر رہے گی) یا تو تجھے اور ان سب کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں ہم اپنے شہر سے ضرور نکال باہر کریں گے یا تمہیں مجبور کردیں گے کہ ہمارے دین میں لوٹ آؤ۔ شعیب نے کہا، اگر ہمارا دل تمہارے دین پر مطمئن نہ ہو تو کیا جبرا مان لیں؟
﴿قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ﴾ ” کہا ان سرداروں نے جو متکبر تھے اس کی قوم میں سے“ اس سے مرادان کے اشراف اور بڑے آدمی ہیں جنہوں نے اپنی لذات میں مستغرق ہو کر اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی، جب ان کے پاس حق آیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ حق ان کی خواہشات نفس کے خلاف ہے تو انہوں نے نہایت تکبر سے حق کو ٹھکرا دیا اور اپنے نبی شعیب اور ان مستضعفین سے کہنے لگے جو حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ ﴿لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ﴾ ” ہم ضرور نکال دیں گے اے شعیب تجھ کو اور ان کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے اپنے شہر سے، یا یہ کہ تم لوٹ آؤ اپنے دین میں“ انہوں نے حق کے خلاف بہیمانہ قوت استعمال کی اور انہوں نے کسی اصول، کسی حق کی پاسداری نہ کی۔ انہوں نے تو صرف اپنی خواہشات نفس کی رعایت اور ان کی پیروی کی اور اپنی ناقص عقل کے پیچھے لگے جو ان کے قول فاسد پر دلالت کرتی ہے۔ پس شعیب علیہ السلام سے کہنے لگے ” یا تو تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہمارے دین میں واپس لوٹنا ہوگا یا ہم تجھے اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے۔“ شعیب علیہ السلام ان کے ایمان لانے کی امید میں ان کو ایمان کی دعوت دیتے رہے مگر وہ اب تک ایمان نہ لائے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے آنجناب کو دھمکی دی کہ اگر وہ ان کی پیروی نہیں کریں گے تو وہ ان کو ان کے اس وطن سے جلا وطن کردیں گے جس میں رہنے کے شعیب علیہ السلام اور ان کے اصحاب زیادہ مستحق ہیں۔ ﴿قَالَ﴾شعیب علیہ السلام نے ان کی اس بات پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ ﴾ ” خواہ ہم (تمہارے دین سے) بیزار ہی ہوں۔“ یعنی کیا ہم ناپسند کرتے ہوئے بھی تمہارے باطل دین اور ملت کی اتباع کریں؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمہارا دین باطل ہے۔ اس دین کی طرف تو صرف اسی کو دعوت دی جاتی ہے جو اس میں کوئی رغبت رکھتا ہو اور وہ شخص جو علی الاعلان لوگوں کو اس دین کی پیروی سے روکتا ہے اور جو کوئی اس دین کی اتباع کرتا ہے اس کو برا کہتا ہے تو وہ کیوں کر اس دین کی دعوت دے سکتا ہے؟