وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ
اور (دیکھو) ملک کی درستی کے بعد (یعنی دعوت حق کے ظہور کے بعد جو اس کی درستی کی دعوت ہے) اس میں خرابی نہ پھیلاؤ۔ (اپنی خطاؤں سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت سے) امیدیں رکھتے ہوئے اس کے حضور دعائیں کرو۔ یقینا اللہ کی رحمت ان سے نزدیک ہے جو نیک کردار ہیں۔
﴿وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔“ یعنی اپنی نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ﴿بَعْدَ إِصْلَاحِهَا﴾ ” اس کی اصلاح کے بعد“ یعنی اطاعت اور نیکی کے ذریعے سے اس کی اصلاح کرلینے کے بعد، کیونکہ معاصی اخلاق، اعمال اور رزق کو فاسد کردیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ﴾(الروم:30؍41) ’’لوگوں کی بد اعمالیوں کے سبب سے بحر و بر میں فساد پھیل گیا۔“ جیسے نیکیوں سے اخلاق، اعمال، رزق اور دنیا و آخرت کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔ ﴿وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ﴾ ” اور اس (اللہ) سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہو۔“ اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اسے پکارو، نیز یہ امید بھی رکھو کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرمائے گا اور اس بات سے بھی ڈرو کہ کہیں اللہ تعالیٰ دعا کو رد نہ کر دے۔ اس بندے کی طرح دعا نہ مانگو جو ناز و ادا کے ذریعے سے اپنے رب کے سامنے جرأت اور گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ جو خودپسندی کا شکار ہے اور جس نے اپنے نفس کو اس کی اصل حیثیت سے بڑھ کر حیثیت دی ہے اور نہ اس شخص کی طرح دعا مانگو جو غافل دل کے ساتھ دعا مانگتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آداب دعا کے بارے میں جو کچھ ذکر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دعا میں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص ہو اور دعائے خفی اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کو متضمن ہے۔ دعا کا چھپانا اور اس کا اخفاء یہ ہے کہ دل اللہ تعالیٰ سے خائف ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دعا کی قبولیت کی امید رکھتا ہو، غافل دل کے ساتھ دعا نہ کرے، اپنے آپ کو مامون نہ سمجھے اور نہ قبولیت دعا کے بارے میں بے پروائی کا اظہار کرے اور یہ چیز دعا میں احسان کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ ہر عبادت میں احسان یہ ہے کہ بندہ اس عبادت میں اپنی پوری جدوجہد صرف کر دے، اسے نہایت کا مل طریقے سے ادا کرے اور کسی طور بھی اس میں نقص واقع نہ ہونے دے۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾” اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مقام احسان پر پہنچنے والے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے والے لوگ۔ پس بندہ جتنا زیادہ احسان کے مقام پر فائز ہوگا اتنی ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے قریب ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں احسان کی ترغیب ہے، جو مخفی نہیں۔