هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
(پھر) کیا یہ لوگ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ (فساد و بدعملی کے جس نتیجہ کی اس میں خبر دی گئی ہے) اس کا مطلب وقوع میں آجائے؟ (اگر اسی بات کا انتظار ہے تو جان رکھیں) جس دن اس کا مطلب وقوع میں آئے گا اس دن وہ لوگ کہ اسے پہلے سے بھولے بیٹھے تھے (نامرادی و حسرت کے ساتھ) بول اٹھیں گے، بلا شبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر ہمارے پاس سچائی کا پیام لے کر آئے تھے (مگر افسوس کہ ہم نے انہیں جھٹلایا) کاش شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہو جو آج ہماری شفاعت کرے ! یا کاش ایسا ہی ہو کہ ہم پھر دنیا میں لوٹا دیئے جائیں اور جیسے کچھ کام کرتے رہے ہیں اس کے برخلاف (نیک) کام انجام دیں، بلا شبہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہی میں ڈالا اور دنیا میں جو کچھ افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب (آج) ان سے کھوئی گئیں۔
وہ لوگ جو عذاب کے مستحق ٹھہرے، وہ اس عظیم کتاب پر ایمان نہ لائے تھے اور انہوں نے اس کے اوامرو منہیات کے احکام کی تعمیل نہیں کی تھی اب ان کے لئے کوئی چارہ سوائے اس کے نہیں رہا کہ وہ اس عذاب کے مستحق ہوں اور وہ عذاب ان پر ٹوٹ پڑے جس کے بارے میں قرآن نے آگاہ فرمایا تھا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ﴾ ” کیا اب وہ اسی کے منتظر ہیں کہ اس کا مضمون ظاہر ہوجائے“ یعنی کیا وہ اس امر کے واقع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جس کی خبر دی گئی ہے، جیسا کہ یوسف نے اس وقت فرمایا تھا جب ان کا خواب سچا ہوگیا ﴿ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ﴾(یوسف:12؍100) ’’یہ حقیقت ہے میرے خواب کی جو اس سے قبل میں نے دیکھا“ فرمایا : ﴿يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ﴾ ” جس دن ظاہر ہوجائے گا اس کا مضمون، کہنے لگیں گے وہ لوگ جو اس کو بھول رہے تھے پہلے سے“ یعنی جو کچھ بیت گیا ہے اس پر ندامت اور تاسف کا اظہار کرتے ہوئے، اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے سفارش تلاش کرتے ہوئے اس چیز کا اقرار کر کے جسے لے کر انبیاء و مرسلین مبعوث ہوئے۔ کہیں گے :﴿قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ﴾” بے شک لائے تھے ہمارے رب کے رسول سچی بات، سو اب کوئی ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو ہماری سفارش کریں یا ہم لوٹا دیئے جائیں“ ﴿فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ﴾ ” تو ہم عمل کریں خلاف اس کے جو ہم کر رہے تھے“ حالانکہ دنیا کی طرف واپس لوٹنے کا وقت گزر چکا ہے﴿فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾(المدثر :74؍ 48) ” پس سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔“ ان کی دنیا میں واپس لوٹنے کی التجا، تاکہ وہ نیک عمل کرسکیں، محض جھوٹ ہے ان کا مقصد تو محض اس عذاب کو دور کرنا ہے جو ان پر وارد ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾ (الانعام :6؍ 28) ” اگر انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے تو یہ وہی کام کریں گے جن سے ان کو روکا گیا ہے۔ بے شک یہ جھوٹ ہیں۔ “ ﴿قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ﴾” بے شک نقصان میں ڈالا انہوں نے اپنے آپ کو“ جب کہ وہ منافع سے محروم ہوگئے اور ہلاکت کی راہوں پر جا نکلے۔ یہ خسارہ مال اور اثاثوں یا اولاد کا خسارہ نہیں بلکہ یہ تو ایسا خسارہ ہے کہ متاثرین کے لئے اس کی کوئی تلافی ہی نہیں۔ ﴿ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ ” اور گم ہوجائے گا ان سے جو وہ افتراء کیا کرتے تھے“ یعنی دنیا میں اپنی خواہشات نفس اور شیطان کے وعدوں کے مطابق بہتان طرازی کیا کرتے تھے اور اب ان کے سامنے وہ کچھ آگیا جو ان کے کسی حساب ہی میں نہ تھا۔ ان کے سامنے ان کا باطل اور گمراہی اور انبیاء و مرسلین کی صداقت روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔