قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ
تم کہو میرے پروردگار نے جو کچھ حکم دیا ہے وہ تو یہ ہے کہ (ہر بات میں) اعتدال کی راہ اختیار کرو، اپنی تمام عبادتوں میں خدا کی طرف توجہ درست رکھو اور دین کو اس کے لیے خالص کر کے اسے پکارو۔ اس نے جس طرح تمہاری ہستی شروع کی اسی طرح لوٹائے جاؤ گے۔
1- انصاف سے مراد یہاں بعض کے نزدیک ”لا إِلَهَ إِلا اللهُ“ یعنی توحید ہے۔ 2- امام شوکانی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ”اپنی نمازوں میں اپنا رخ قبلے کی طرف کرلو، چاہے تم کسی بھی مسجد میں ہو“ اور امام ابن کثیر نے اس سے استقامت بمعنی متابعت رسول مراد لی ہے اور اگلے جملے سے اخلاص للہ اور کہا ہے کہ ہر عمل کی مقبولیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے مطابق ہو اور دوسرے خالص رضائے الٰہی کے لئے ہو۔ آیت میں ان باتوں کی تاکید کی گئی ہے۔